گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
نہیں بچ سکتا۔ اب اس کاحل کیا ہے؟ حل یہی ہے کہ ایسے شخص کی شادی کروائی جائے۔اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جب بچے اور بچیاں جوان ہوجائیں اور والدین اُن کے نکاح میں غیر ضروری تاخیر کریں، اور اس کے بعد وہ اولاد گناہ کرے چاہے پریکٹیکل کرے، چاہے خیالات کی دنیا میں کرے، دونوں صورتوں میں اولاد کو بھی گناہ ہوگا اور ان کے بوڑھے والدین کو بھی گناہ ہوگا۔ اسلام کی تعلیمات ہر طرف سے مکمل ہیں۔ پورا نظام دیا۔ پورا طریقہ بتایا۔ پوری ترغیب بھی دی۔ درجات بھی بتائے۔ اب اگر نہ کیا تو پھر بتایا کہ دیکھو! تم والدین بھی گناہگار ہوگے، تمہاری اولادیں بھی گناہ گارہوں گی۔نبیﷺ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تین نصیحتیں محمد بن عمر اپنے والد عمر سے اور وہ اپنے والد حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ سے نقل کرتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب حضرت محمدمصطفیٰ اَحمد مجتبیٰ سرکارِ دوعالمﷺ نے ایک موقع پر تین نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے علی! تین کاموں میں تاخیر نہ کرنا، جلدی کرنا: (سنن الترمذي: باب ما جاء فی الوقت الأوّل من الفضل) (۱) نماز ادا کرنے میں جلدی کرنا جب اس کا وقت ہوجائے۔ (۲) جب کوئی آدمی مرجائے تو کفن دفن میں جلدی کرنا۔ (۳) جب بیٹے یا بیٹی کا مناسب رشتہ مل جائے تو نکاح کرنے میں جلدی کرنا۔ اور آج دین سے دوری کا یہ حال ہے کہ بچیاں 18,15,10سال سے گھروں میں جوان بیٹھی ہیں۔ عام طور سے 11,10,9سال کی عمر میں بچیاں جوان ہوجاتی ہیں۔ اب ایسے ماحول میں جو بے حیائی کا ہے، ایک بچی گیارہ سال کی عمر میں بالغ ہوگئی۔ آج اس کی عمر بائیس سال ہے، یا پچیس سال ہے، یا اٹھائیس سال