گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
انسان کی شخصیت تبدیل ہوجایا کرتی ہے۔ انسان کی حیثیت وہ نہیں رہتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے ظاہر کو کتنا درست کیا جائے؟ اس کے بارے میں قرآن مجید سے پوچھیں: اللہ فرماتے ہیں: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔ ہم نے اپنے محبوب کو تمہارے اندر بھیجا، نمونہ بنا کے بھیجا۔ جیسے نبی علیہ السلام کا چلنا ہے ایسا چلنا بنالو، جیسے آقاﷺکا بولنا ہے ایسا بولنا بنالو، جیسا بیٹھنا ہے سونا ہے اُٹھنا ہے لباس ہے ہر ہر چیز اس طریقے کے مطابق بنالو، قیامت کے دن میرے پاس آئو گے میں تمہیں انہی کے ساتھ کھڑا کردوں گا۔ تم میرے محبوب جیسے بن کے آجائو پھر محبت کی نگاہ دنیا میں بھی تمہارے اوپر پڑے گی اور قیامت کے دن بھی تمہارے اوپر پڑے گی۔ حدیث شریف میں آتا ہے آقاﷺ نے فرمایا: میرا امتی قابل معافی ہے مگر جو کھلم کھلا اعلانیہ گناہ کرتے ہیں۔ کُلُّ اُمَتِّی مُعَافًی اِلَّا الْمُجَاھِرِیْنَ (بخاری) ایسا نہ ہو کہ ہم میڈیا کی اور اِدھر اُدھر کی روش چل کر گناہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیں اور کسی وعید میں داخل ہوجائیں۔ کسی نبی کو حقیر سمجھنا نہیں چاہیے۔مغفرت والا ایک عمل ایک صحابی نے رات کے وقت ایک عجیب کام کیا۔ صبح حاضر ہوئے نبی علیہ السلام کے پاس تو آقا علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے پیارے! تو نے رات کون سا عمل کیا کہ تیری مغفرت کا فیصلہ اوپر سے ہوگیا کہنےلگے اے اللہ کے نبی! میں رات کو لیٹا ہوا تھا اور