گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
جنابِ رسول اللہﷺ نے ان عظیم المرتبت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ سے بھی بیعتِ توبہ لی ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک بیعت کرنا آج کے دور میں واجب ہے۔ یہ بیعت ویسے تو سنت کا درجہ رکھتی ہے، لیکن اس سے زندگی کے فرائض زندہ ہوجاتے ہیں۔ بعض موقعوں پر نبی ﷺ نے صحابۂ کرام سے اس بات پر بھی بیعت کی کہ وہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کریں گے۔ نبی ﷺ نے بعض حضرات صحابہ کرام جیسے کہ حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ ، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ اس بیعت کے بعد ان کی حالت یہ تھی کہ وہ گھوڑے پر سوار کہیں جا رہے ہوں اور اچانک کوڑا یا نکیل نیچے گر جاتے تو وہ کسی سے نہیں مانگتے تھے، بلکہ گھوڑا روکتے، خود نیچے اُترتے اور کوڑا یا نکیل ہاتھ میں پکڑ کر دوبارہ سوار ہو جاتے تھے۔ یہ حضرت سوچتے تھے کہ ہم نے چوں کہ نبی ﷺ سے بیعت لی ہوئی ہے کہ کسی سے کچھ نہیں مانگنا تو اب کسی سے یہ بھی نہیں کہنا کہ کوڑا یا نکیل پکڑادو۔ (صحیح مسلم: کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسألۃ للنّاس) معلوم ہوا کہ بیعت کی مختلف جہتیں ہیں۔ جو بیعت ہمارے ہاں ہوتی ہے وہ ہے ’’بیعتِ توبہ‘‘۔ انسان کسی کے ہاتھ پر توبہ کا اِرادہ کرتا ہے، پچھلی زندگی کو چھوڑ کر شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا اِرادہ کرتا ہے۔ اللہ ربّ العزّت اس کے ایسا کرنے پربرکتیں دیتے ہیں۔ ویسے توبہ ہروقت آدمی کے لیے کرنا ضروری ہے۔ انسان اکیلے بھی توبہ کرسکتا ہے اور اجتماعی توبہ بھی کرسکتا ہے۔ ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ اکیلے توبہ کرنا، سادے کاغذ پر لکھ کر دینے کی مانند ہے، اور اکٹھے توبہ کرنا