گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
ہے۔ خدا کے بندو! سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسا ماحول جس میں ہر طرف گناہ کی دعوت دی جارہی ہو اور خود آپ نے ان کو انٹرنیٹ اور موبائل دیے ہوئے ہوں تو کیا بنے گا؟ 15,10سال ان کیفیات کو اور اندر کے جسمانی تقاضوں کو کیسے روکا جائے گا۔گناہوں سے کون بچ سکتا ہے؟ حضرت جی حافظ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ اس ماحول میں یا تو ولیہ بچے گی یا غبیہ بچے گی۔ یا ولی بچے گا یا غبی بچے گا۔ کیا مطلب؟ ولی کہتے ہیں اس کو جس کے دل میں نورِ نسبت ہو، اللہ کا خوف ہو، یہ تو گناہ سے بچے گا۔ یا پھر غبی بچے گا۔ غبی پاگل کو کہتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے بچنا بڑا مشکل ہے۔ بہت مشکل ہے۔ والدین اس کا بالکل خیال نہیں کرتے اور اولاد کے گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔ کرتے وہ ہیں، لیکن گناہ ان کو بھی پورا ملتاہے۔ جو کچھ مسلمانوں کے گھروں میں ہو رہا ہے سب کو پتا ہے۔ الحمدللہ! نوجوان توبہ کرتے ہیں، اس کے بعد نیکی کی زندگی شروع کرتے ہیں، زندگی تبدیل کرتے ہیں۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے، اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ نوجوان جب اپنے حالات بتاتے ہیں تو وہ حالات ایسے عجیب ہوتے ہیں کہ زبان سے بولے بھی نہیں جاتے۔ ایک سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان دوکان پر آیا اور کہنے لگا: مجھ سے ایک ہفتہ نہیں گزرتا، گناہ ہوجاتاہے۔ اُس کی کوئی اکنامک کنڈیشن بھی ایسی نہیں کہ کسی امیر گھرانے کا ہو۔ ابھی میٹرک میں ہے اور کوئی جاب بھی نہیں۔ میں عام طور سے نہیں پوچھتا اور نہ ہی الحمدللہ! مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی عمر اور حالت نے پوچھنے پر مجبور کر دیا کہ آخر کرتے کیا ہو؟ کہنے لگا: بس گھر میں کزن ہیں، اُن سے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اس کی ابھی داڑھی نہیں ہے اور ہم اس کو بچہ کہتے ہیں کہ بچہ ہی