گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
کے پاس رہی۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بیرِ اَریس (کنویں کا نام) جو مسجدِ قبا کے مغربی جانب بالکل قریب ہی تھا، وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور محبت سے انگوٹھی کبھی پہن رہے تھے اور کبھی اُتار رہے تھے کہ اسی دوران وہ انگوٹھی ہاتھ سے گری اور کنویں میں چلی گئی۔ (بیرِ اَریس مسجدِ قبا کے پاس کنواں تھا، اب نہیں ہے شاید مسجد کی حدود میں شامل ہوگیا ہے) بہرحال بہت تلاش کیا مگر نہیں ملی۔ تین دن تک مسلسل تلاش کیا گیا، سارا پانی نکال لیا گیا مگر نہیں ملی۔ (بخاری: رقم 5879)انگوٹھی کیوں تلاش کروائی؟ سوال یہ ہے کہ تین دن تک انگوٹھی کو تلاش کیوں کیا گیا؟ اس کے لیے اتنے خرچے کیے گئے۔ اتنے خرچہ میں تو نئی انگوٹھی بن سکتی تھی۔ سارا کنواں پانی سے خالی کرا گیا۔ راوی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تین دن تک امیر المؤمنین کے ساتھ اس کنویں پر آ کر انگوٹھی کو تلاش کیا، مگر نہیں ملی۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں مذکورہ حدیث کی شرح میں ہے کہ یہ صرف اس لیے تھا کہ وہ برکت والی انگوٹھی تھی اور نبیﷺ کی یادگار تھی، اگر یہ بات نہ ہوتی تو اپنی انگوٹھی کے لیے یہ سب نہ کرتے۔ چناں چہ علماء نے لکھا ہے کہ اس انگوٹھی کی برکات بہت زیادہ تھیں۔ جب تک یہ انگوٹھی موجود رہی اُمت کے اندر کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوا، اگر کھڑا ہوا بھی تو وقتی طور پر پھر ختم ہوگیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی چھ سال بہت عمدہ چلے، جب یہ انگوٹھی گری تو اگلے چھ سال زمانہ خلافت میں فتنے کھڑے ہوگئے اور خوارج کا فتنہ ظاہر ہوگیا یہاں تک کہ اس فتنے میں خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔ (فتح الباری:375/13) بہرحال اس واقعہ سے ایک بات یہ ملتی ہے کہ جو بڑوں کی یادگار چیزیں ہیں، اُنہیں