گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
کپڑے گیلے تھے، اور کوئی تھے بھی نہیں۔ میرے سُسر نے مجھے دیکھا کہ وہی کل والے میلے کپڑے ہیں، اور آج تو گیلے بھی ہیں۔ میرے سُسر کو اللہ تعالیٰ نے سونے کا دل دیا تھا۔ اسی وقت پہچان لیا کہ اس کے پاس کوئی دوسرا جوڑا بھی نہیں۔ ایک ایسے بندے کو جس کے پاس صرف ایک جوڑا تھا، خاندان بھی کوئی نہیں تھا، اپنی بیٹی دے دی۔ بہرحال اس وقت نکاح ہوگیا اور فراغت کے کچھ عرصہ بعد رُخصتی بھی ہوگئی۔ فرماتے ہیں کہ جو ابتدائی چند دن تھے، کام کاج توکچھ تھا نہیں اور طالبعلمی کا زمانہ ابھی ابھی مکمل ہوا تھا۔ کبھی کھانے کو مل جاتا، اور کبھی کچھ نہ ملتا فاقہ ہوجاتا۔ میری بیوی کچھ عرصہ تو میرے ساتھ رہی، اُس کے بعد کچھ دنوں کے لیے والدین سے ملاقات کے لیے چلی گئی۔دنیا کی زندگی جنت کا نمونہ جب پہلی مرتبہ گئی تو والدہ نے پوچھا: بیٹی! تو نے اپنے نئے گھر کو کیسا پایا؟ فرماتے ہیں کہ میری بیوی اتنی تقیہ، نقیہ، نیک اور پاکدامن عورت تھی۔ اُس کی نظر میرے تقویٰ پر، میری دین داری پر تھی۔ چناں چہ اُس نے میرے دین کو سامنے رکھتے ہوئے کہا: اماں! میں تو سمجھتی تھی مرکے جنت میں جائیں گے، میں تو دنیا میں ہی جنت میں پہنچ گئی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میرے سسر نے مجھے اس وقت پہچان لیا تھا جب احمد علی احمد علی نہیں تھا۔ آج تو احمد علی احمد علی ہے۔ جی ہاں! یوں بھی نکاح ہوا کرتے تھے۔ ہمارے اکابر نکاح کو دین اور تقویٰ کی بنیاد پر کرتے تھے۔ اور آج ہم نے کتنے جھمیلے اکٹھے کیے ہوئے ہیں، اُس کے باوجود بھی برکتیں نہیں۔ برکتیں تو آسانی میں ہیں یعنی سادگی سے ہم کریں گے تو برکتیں آئیں گی۔ یہ 2 + 2 4=کی طرح باتیں ہیں۔ کسی کو سمجھ میں آجائیں تو کرکے دیکھ لے، نہ سمجھ میں آئیں تو