گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
گناہ کرلو بعد میں توبہ کرلیں گے۔ یہی بات اس نےبھی سوچی اور اس نے زبان سے کہہ دیا نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ ذٰلِكَ کہ خدا نہیں ہے۔ یہ کفریہ جملہ زبان سے نکلا اور اُدھر سے جلّاد نے رسا کھینچا اور ایک عبادت گزار کی موت کفرپر آگئی۔ شیطان کا کام تو چوں کہ پورا ہوگیا تھا تو وہ یہ کہتے ہوئے چلا گیا: قَالَ اِنِّیْ بَرِىْٓءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ o (الحشر: 16) ’’میں تجھ سے بری ہوں، میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔ یہ پورا واقعہ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیرِ قرطبی میں اسی آیت کے ذیل میں لکھا ہے۔بے نکاح نہیں رہنا چاہیے جب نامحرم اکھٹے ہوتے ہیں، گناہ کرکے ہی رہتے ہیں اس لیے کہ تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے بچنے کا، ’’نکاح‘‘ اور جلد سے جلد نکاح۔ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو فاروق کیوں کہتے ہیں؟ حق اور باطل میں تمیز کرنے والا۔ فاروق کا مطلب یہی بنتا ہے۔ کتنی مرتبہ یہ ہوا کہ ان کی زبانِ مبارک سے جو بات نکلی اللہ ربّ العزّت نے اس پر مہر لگا دی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر ڈال دیا ہے‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب المناقب: باب فی مناقب عمر رضی اللہ عنہ ) ایک روایت میں ارشادِ نبویﷺ ہے: ’’ اے ابن الخطّاب! اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے جہاں سے آپ گزر رہے ہوتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ) بڑوں کی بات بھی بڑی ہوتی ہے۔ بادشاہوں کا کلام بھی کلاموں کا بادشاہ ہوا کرتا ہے۔ حضرت طائوس رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان سے پوچھا کہ کیا تم نے نکاح کیا ہے؟