گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
بنے ہوئے ہیں۔ کیا کچھ وہاں نہیں ہے؟ شریعت نے اس بات کو ناپسند کیا کہ انسان گناہوں والی زندگی گزارے۔ کہا گیا کہ تم نکاح کرو تاکہ تمہیں پاکباز زندگی گزارنا آسان ہو جائے۔ اگر نکاح کا حکم نہ دیا جاتا تو مرد عورتوں کو فقط ایک کھلونا سمجھ لیتے۔ اور ان کی بالکل بھی قیمت نہ ہوتی۔ اور آج ہماری سوچ کیسی اُلٹی ہوگئی ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا ایک ملفوظ پڑھا۔ اُس کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری عورت گھر میں اپنے ماں باپ، ساس سُسر، بچوں کا خیال رکھے تو یہ دقیانوسی سوچ والی ہے۔ اور یہی عورت جہازوں میں نامحرم مردوں کا خیال رکھے تو یہ بڑی اَپ ٹو ڈیٹ ہے۔ کام گھر میں کرے تو یہ دقیانوسی ہوگئی، اور وہی کام نامحرموں کے پاس کرے تو بڑی اَپ ٹو ڈیٹ ہوگئی۔ ہوٹل میں ریسیپشن پر بیٹھے، لوگوں کی نظریں بھی برداشت کرے اور اُن کے نخرے بھی اُٹھائے تب تو وہ اَپ ٹو ڈیٹ ہے، اور اگر شوہر کی بات مان لے تو وہ دقیانوسی ہوگئی۔ آج ہماری سوچ ہی اُلٹی ہوگئی۔ بات کو سمجھنا چاہیے کہ نکاح کے ذریعے ہی عورت کو مقام ملتا ہے۔ آگے بات کرتے ہیں کہ زنا اور نکاح میں کیا فرق ہے؟نکاح اور گھریلو ذمہ داریاں زنا فقط ایک تقاضے کو پورا کرلینے کا نام ہے جبکہ نکاح میں عورت کی پوری پوری ذمہ داری لینی پڑتی ہے۔ مہر کی ادائیگی، بعد از وفات عورت کا وراثت میں شامل ہونا، رہایش کی ذمہ داری، زندگی بھر نان نفقہ کی ذمہ داری، اولاد ہوجائے تو ان کی دیکھ بھال کرنا۔ نکاح سے یہ ساری چیزیں وجود میں آتی ہیں اور اس سے ایک حسنِ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ لیکن آج کل کے جو کافر لوگ ہیں وہ ان ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں، اور ہم چو ں کہ اُنہی کا میڈیا دیکھ رہے ہیں اسی لیے دن رات اُنہیں کے پیچھے ہیں۔