گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
حمیرا! یہ Nick Name رکھا ہوا تھا۔ حمیرا احمر سے ہے آج کے زمانے میں اگر ہم اس کا ترجمہ کریں تو پنکی۔ احمر سرخ کو کہیں گے۔ حمیرا! میرے لیے پانی بچا دینا۔ غور کرنے کی بات ہے کہ نبی ﷺ کے لیے کوئی پانی کی کمی تو نہیں تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کو کہتے تو کہاں کہاں سے نہ لے آتے۔ اللہ کو کہتے تو جبرائیل اور میکائیل بھی لے آتے۔ پانی کی تو کوئی کمی نہیں تھی پھر نبی ﷺ امی جان کا بچا ہوا پانی پیئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ نبی ﷺ کا بچا ہوا پانی امتی پیے، مرتبے اور مقام کے اعتبار سے بھی اگر سوچیں، لیکن محبت اظہار مانگتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: حمیرا! پانی بچادینا۔ امی عائشہ رضی اللہ عنھا نے پیالے میں پانی بچادیا، آقا قریب آئے امی نے پیالہ پکڑادیا۔ نبی ﷺ نے پیالے کو ہاتھ میں لیا اور پوچھا: حمیرا! تم نے کہاں سے لب لگاکر پانی پیا تھا؟ امی عائشہ رضی اللہ عنھا نے اشارہ کردیایہاں سے۔ روایت میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے پیالے کے رُخ کو پھیرا اور وہیں سے لب لگا کر پانی پیا جہاں سے امی عائشہ رضی اللہ عنھا نے لب لگا کر پانی پیا تھا۔ خاوند یہ محبتیں دے پھر گھر کے اندر کیسے لڑائی اور طلاق کی بات آئے گی؟ محبتیں تو دیں۔ تو محبت اس نکاح کا ایک مقصد ہوا کرتا ہے۔پانچواں مقصد شریکِ حیات کامل جانا: انسان نکاح کے ذریعے اپنی زندگی کا ایک ایسا ساتھی بنالیتا ہے جو زندگی کے اُتار چڑھاؤ میں، پریشانیوں میں، غموں میں ایک دوسرے کا مدد گار ہوتا ہے۔ اپنا غم کسی سے شیئر کرسکتا ہے، خوشی کسی سے کہہ سکتا ہے۔ اس کو ایک احساس ہوتا ہے کہ میں تنہا نہیں ہوں میرے ساتھ کوئی ہے۔ شریک حیات کا مقصد ایک دوسرے کے غموں کو سنبھالنا ہوتا ہے، تو میاں بیوی دونوں مل کر زندگی کے غموں کو سنبھال لیتے ہیں۔