گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
ہے۔ وہ جتنا زمین سے اوپر ہے، اُس سے زیادہ زمین سے نیچے ہے۔ یہ بچہ نہیں ہے۔ شریعت کی نگاہ میں جو بچہ نہیں رہا، آپ کے کہنے سے بچہ کیسے ہوگیا؟ شریعت نے جسے بالغ قرار دیا ہے۔ جس پر فرائض کو انجام دینا ضروری قرار دیا ہے، ہم کیسے اُسے بچہ کہہ رہے ہیں؟ اور آج کل تو چھوٹے 7,5سال کے بچوں کے بھی ایسے ایسے Cases آگئے ہیں کہ بیان نہیں کرسکتا۔ بس جتنی جلدی ممکن ہو، شادی کر دینی چاہیے۔ذات اور جہیز پر نکاح میں تاخیر ابھی چند دن پہلے کی بات ہے۔ ایک صاحب کی بچیاں ماشاءاللہ عالمات ہیں اور عمر بھی کافی ہوچکی۔ میں نے ان کو دو تین رشتے بتائے۔ کہنے لگے: آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ دین دار ہیں، اور یہ خوبیاں بھی ہیں۔ گارنٹی بھی دے رہیں ہیں۔ بس جی! ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہماری ذات کے نہیں ہیں۔ اب بچیوں کو بٹھاکر بوڑھاکر دیں گے۔ رگڑ دیں گے، اگر وہ ذات نہیں ملے گی تو ذات پات کے پیچھے شادی بھی نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاں پڑھ لیا ہے کہ ذات اتنی ضروری ہے کہ بچیاں بوڑھی ہوجائیں تب بھی باہر دوسری ذات میں نکاح نہ کریں؟ اور اگر خود یہ آج دنیا سے چلے گئے تو پیچھے بھائیوں نے کس کا خیال رکھنا ہے؟ اس کے علاوہ ایک اور بہت بڑا مسئلہ شادی دیر سے کرنے کا جہیز بھی ہے۔ ہم نے اپنے لیے خود ہی بہت مشکلات کھڑی کرلی ہیں۔ شریعت نے تو ایسی کوئی چیز نہیں کہی۔ ضرورت کے مطابق، اپنی سہولت کے مطابق باپ اپنی بیٹی کو کچھ دے دے توٹھیک ہے، لیکن اس کی تیاری میں اتنی تاخیر کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔