گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
حضرات صحابہ کرام سفر میں اللہ کے ذکر کا بہت خیال فرماتے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم چڑھائی پر چڑھتے تو اَلله اَکْبَر کہتے، اور جب ڈھلان سے اترتے تو سُبْحَانَ الله کہتے۔ (صحیح بخاری) ایک روایت میں ہے کہ تین مرتبہ کہتے، جبکہ دوسری روایات میں عموم ہے کوئی تعداد مقرر نہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت سے کہتے تھے۔ جب ہم سفر پہ جاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ کچھ احباب ہوتے ہیں جو حضرت جی کا بیان لگالیتے ہیں اور سنتے رہتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو میوزک لگالیتے ہیں اب بتائیں کیا بنے گا۔ کہاں چڑھائی آئی، کہاں ڈھلان سے اترے، کچھ پتا ہی نہیں ہوتا۔ یاد رکھیے! جو سفر کی حالت میں خدا کے ذکر میں لگ جاتے ہیں تو فرشتے اس کے ہم سفر ہوتے ہیں۔ اور جو شعروشاعری، میوزک، گانے بجانے میں، FM لگانے میں لگے رہتے ہیں تو ان کا رقیبِ سفر پھر شیطان ہوتا ہے۔ اب خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہوجائے اور موت آجائے تو جو ذکر میں لگا ہوا تھا ذکر کی حالت میں قیامت کے دن اُٹھے گا، اور جو گانے بجانے میں لگا ہوا تھا تو وہ پھر قیامت کے دن شیطانوں کے ساتھ ہی اُٹھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے آمین۔ علماء نے لکھا ہے کہ سفر کے اندر تین کام کرنے بہت ضروری ہیں: (۱) اپنے مال سے غریب ساتھیوں پر خرچ کرنا۔ (۲) حسنِ خلق سے پیش آنا۔ (۳) رفقائے سفر کے ساتھ ہنسی خوشی، تفریح اور خوش طبعی کا عمل رکھنا۔لمبے سفر کا ایک دلچسپ واقعہ شیر شاہ ٹول پلازے پہ راستہ بند تھا۔ کسی نے بتایا کہ یہاں روزانہ ہڑتال ہو رہی