گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
ایک مہرِ فاطمی ہے۔ یعنی سیدہ فاطمہرضی اللہ عنھا کا حق مہر، یا پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا مہر جو نبی علیہ السلام نے ادا کیا۔ اگر اس کو مقرر کرلیا جائے تو یہ بھی سنت ہے۔ دوسرا مہرِ مثل ہے۔ یعنی جس لڑکی کی شادی ہو رہی ہے، اُس کے قریب کی رشتہ دار لڑکیوں کا جو مہر رکھا گیا ہے، وہی مہر اس کا بھی رکھا جا رہا ہے تو یہ مہرِ مثل ہے۔ اس کی بھی شریعت نے اجازت دی ہے۔ تیسرا مجوّزہ مہر ہے۔ جو لڑکی کی دانش مندی، نیکی، تقویٰ، حیا کو دیکھتے ہوئے فریقین کی باہمی رضا مندی سے طے کیا جا رہا ہے تو یہ بھی جائز ہے۔ آج مہر کی اہمیت ہی کوئی نہیں رہی۔مہر لڑکی کا حق ہے کئی مرتبہ ایسا ہوا نکاح پڑھاتے وقت نکاح فارم لے کر آئے۔ میں نے پوچھا: بھئی! مہر کتنا ہے؟ کہنے لگے: جی! آپ خود ہی رکھ لیں۔ کئی جگہ میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ سن لیجیے کہ یہ لڑکی والوں کا حق ہے۔ یہ لڑکے والوں کا حق نہیں ہے۔ یہ لڑکی والوں کا حق ہے کہ وہ بتائیں اور پھر لڑکے والے اُسے ادا کریں۔ باہمی رضا مندی سے طے کرنا ہے، اس میں کوئی لڑائی نہیں کرنی۔ یہ طے کرنا نکاح خواں کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ یہ کام آپ نے خود ہی کرنا ہوتے ہیں۔ اسی طرح نکاح کے وقت جو مہر ہوتا ہے مُعـَجـّل اور مُؤجـّل۔ دولفظ بولے جاتے ہیں۔ مُعـجل کا مطلب یہ ہے کہ فورًا، عجلت جلدی سے نکلا ہے، یہ کہ فورًا ادا کردیا جائے۔ اور ایک ہوتا ہے عندالطلب کہ لڑکی کے مانگنے پر ادا کردیا جائے۔ بہر حال! مہر کا معاملہ اچھے طریقے سے نمٹانا چاہیے۔ ہاں! اگر بیوی اپنی مرضی سے مہر کی کل رقم یا کچھ اس میں سے