گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
بیعتِ اسلام یہ بیعت پہلے نبی ﷺ کے زمانے میں کی جاتی تھی۔ جب کوئی آدمی دینِ اسلام میں داخل ہونا چاہتا، کفر اور شرک سے بیزاری کا اعلان کرنا چاہتا تو نبی ﷺ اس سے بیعت لیا کرتے تھے۔ یہ بیعت ایمان لانے والے کے لیے ہوتی تھی۔ اس قسم کی بیعت کو ہم سب سنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ لیکن اس کے بعد ایک اور طرح کی بیعت بھی ہے جو حضورِ پاکﷺ نے لی۔ جو آیتِ مبارکہ اس عاجز نے شروع میں پڑھی ہے، اس میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب سے فرما رہے ہیں: يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰۤى اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَيْـًٔا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ (الممتحنۃ:12) ترجمہ: ’’اے میرے محبوب! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں مانیں گی، اور چوری نہیں کریں گی، اور زنا نہیں کریں گی، اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور نہ کوئی ایسا بہتان باندھیں گی جو انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑ لیا ہو، اور نہ کسی بھلے کام میں تمہاری نافرمانی کریں گی‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ ربّ العزّت نے لفظ مؤمنات فرمایا ہے، کافرات، مشرکات اور منافقات نہیں کہا۔ یعنی یوں نہیں فرمایا کہ جب آپ کے پاس کافر عورتیں آئیں تو ان سے بیعتِ اسلام لے لو، بلکہ فرمایا کہ جب ایمان والی عورتیں آئیں۔ یعنی اُن کے ایمان کی گواہی اللہ تعالیٰ خود دے رہے ہیں اور نبی ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ