گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
اسی طرح حضرت خَبَّاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے دیکھا کہ آپﷺ بیت اللہ شریف کے سائے میں اپنی چادر پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ، سیرۃ: 214/2) یہاں سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں: ایک تو یہ کہ جو چیز موجود ہے اُس کا آپﷺ نے تکیہ بنالیا۔ دوسری بات بڑی پیاری ہے۔ وہ یہ کہ نبی کریمﷺ کعبہ کے سائے میں بڑی محبت سے، کثرت سے، شوق سے بیٹھتے تھے۔ اور نبیﷺ کے جدّ ِامجد، دادا اور دیگر سردارانِ قریش کی مجلسیں بیت اللہ شریف کی دیوار کے ساتھ ہوا کرتی تھیں۔ تو یہ بات ثابت ہے کہ آپﷺ کعبہ کے سائے میں بیٹھتے تھے۔رِقّت آمیز باتیں اب اگر کوئی آدمی حج کے لیے یا عمرہ کے لیے جائے تو کیا کرے؟ یہ دل کی بات ہے جو اللہ نے دل میں ڈالی۔ انسان وہاں جائے تو کچھ وقت کعبہ شریف کے سائے میں چلا جائے۔ خواہ ایک منٹ کے لیے چلا جائے، آدھے منٹ کے لیے چلا جائے، طواف کے دوران جائے یا طواف کے علاوہ جائے۔ بس سنت کی نیت کرلے کہ نبیﷺ بیت اللہ کے سائے میں آتے تھے۔ اور ساتھ میں اللہ سے مانگے کہ اے اللہ! اس دنیا کے اندر سب سے زیادہ معزّزو مکرّم اور محترم سایہ تیرے اس گھر (بیت اللہ)کا ہے۔ اللہ! آپ نے میرے گناہوں کے باوجود اپنی رحمت سے اس دنیا میں مجھے اپنے گھر کا سایہ عطا کر دیا۔ اللہ! قیامت کے دن تیرے عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، اپنی رحمت سے مجھے وہ سایہ بھی عطا کر دینا۔