گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
آپ کہہ دیتے ہیں کہ سنت کی کیا ضرورت ہے فرض پورا ہوجائے یہ بڑی بات ہے۔ یہی امام صاحب کہیں کہ جی! فرض تو میں نے پورا کرلیا، فقہاء نے لکھا ہے کہ اس سے فرض پورا ہوجاتا ہے ستر چھپ جاتا ہے۔ تو ہم میں سے ہاتھ کھڑا کرکے بتائیں کون ان کے پیچھے نماز پڑھے گا؟ کہیں گے جناب! لگتا ہے آپ کے دماغ میں کوئی مسئلہ ہوگیا ہے علاج کروائیے۔ اسی طرح اعمالِ ظاہرہ کا باطنہ پہ اثر آتا ہے۔ جو آدمی بیعت ہے، معمولات کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، مراقبہ کی پابندی کرتاہے وہ اپنے دل کے اوپر کیفیات کو محسوس کرتا ہے۔ اور جو نہیں کرتا وہ ان کو محسوس بھی نہیں کرتا حتٰی کے حدیث سے بھی اس کی دلیل لے لیجیے۔ نبی کریمﷺ جب نماز کے لیے صفیں سیدھی فرماتے تو بالکل تیر کی طرح سیدھی فرماتے تھے۔ (متفق علیہ) یہاں ایک طرف سے سے تیر چلائیں دوسری طرف کی صف سے نکل جائے، اتنا خیال فرماتے تھے۔ صحابہ کی صفوں کو نماز میں ٹھیک فرماتے اور فرماتے کہ دیکھو! تمہاری صفیں اگر ٹیڑھی ہوگئیں تو تمہارے دل ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (مسلم حدیث ابی مسعود رضی اللہ عنہ :رقم الحدیث:432) تو ظاہر کا اثر باطن پہ ہوا کہ نہیں ہوا؟ ظاہر میں صف ٹیڑھی ہورہی ہے لیکن آقاﷺ خبردے رہے ہیں کہ دل ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ اس لیے اس فتنے کے دور میں بعض کہہ دیتے ہیں کہ جی! ظاہری گناہ کو چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ باطن ٹھیک ہونا چاہیے۔ اگر ہم غور کریں تو ہم اپنے ظاہری معاملات میں بھی اور اپنے دنیاوی معاملات میں بھی اپنے ظاہر پہ ضرور نظر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر بیگم صاحبہ نے آپ کو کہا کہ آپ کیلا لے آئیے گا بچہ کو کھلانا ہے۔ آپ فروٹ کی دوکان پر جائیں، وہاں کیلے پڑے ہوئے ہوں، اور اس کا جو ظاہری لباس یعنی چھلکا ٹھیک نہ ہو۔ اب آپ دیکھ کر