نہیں اُس زمانے میں معاملات تصوف سے آگاہی کے باوجود لوگ اس کے مدعی نہ ہوتے تھے؛لیکن اب دعوی ہے مگر معاملات تصوف سے آگاہی مفقود ہے۔(۱)
شیخ ہجویری کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تصوف کی حقیقت موجود تھی لوگوں میں زہد وتقوی، خشوع وخضوع ، فکر ِآخرت اور خوفِ خدا جیسی صفات تھیں اور ان صفات کے متصف حضرات عابد اور زاہد کہلاتے تھے، لیکن تصوف کا لفظ اس وقت رائج نہیں ہوا تھا، مولانا جامی نے نفحات الانس میں لکھا ہے کہ پہلا شخص جو صوفی کہلایا ابو ہاشم تھا جن کا انتقال ۱۵۰ھ میں ہوا اور انہی کے رفقاء کے لئے فلسطین کے مقام رملاء میں ایک پہاڑی پر صوفیہ کی پہلی خانقاہ تعمیر ہوئی جو ایک زرتشتی آتش پرست امیر کی فیاضی کانتیجہ تھی۔ (۲)
علامہ ابن تیمیہ صوفیاء کے وجہ تسمیہ کے سلسلے میں مختلف اقوال کو ذکر کرتے ہوئے قولِ فیصل ذکر کرتے ہیں،نیز زاہد کو صوفی کب سے کہنا شروع ہوا اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
زاہد کو صوفی کہنا دوسری صدی کے درمیان سے ہے اس لئے کہ موٹے موٹے کپڑے زاہدوں میں زیادہ مستعمل ہوتے تھے اور جس نے یہ کہا کہ یہ صفہ کی طرف منسوب ہے جس کی طرف بہت سے صحابہ منسوب ہیں اور ان کو اہل صفہ کہا جاتا ہے یا یہ صفا یا صف اول یا صوفہ بن مروان بن ادبن طابخۃ یا صوفۃ القفا کی طرف منسوب ہے تویہ سب اقوال ضعیف ہیں۔(۳)
سب سے پہلے صوفی کا لفظ کن کے لئے استعمال ہوا، اور تصوف کی تعریف وشرح
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) گنج مطلوب ترجمہ کشف المحجوب مترجم عبد المجید یزدانی، ص: ۷۴، صابری بک ڈپو دیوبند
(۲) نفحات الانس ص:۳۱
(۳) نعمان بن محمود بن عبد اللہ الآلوسی، جلاء العینین فی محاکمۃ الاحمدین ص:۶۲، مطبعۃ المدنی ۱۹۸۱ء