بہت سے لوگ کام کرتے تھے اور لوگوں کی عام ضرورتوں کو خاص طور پر علماء مشائخ طلبہ ، شاگردوں اور فقراء ومحتاجوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی ان کی معاشی سرگرمیوں کا بنیادی سبب تھا،امام صاحب اس حقیقت سے بھی واقف تھے جو شخص فقر وفاقہ اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا محتاج نہیں ہوتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم بتانے میں یعنی فتوی دینے میں کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کرتا ہے، جس کو اللہ مخلوق سے بے نیاز کردیتے ہیں وہ حق کو جلدی قبول کرلیتا ہے اور حق کو اختیار کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی ہے اور جو فقیہ نان شبی کا محتاج ہوجاتا ہے تو پوری دنیا اس کے سامنے تاریک ہوتی ہے ا سے حق دکھائی نہیں دیتا ہے، اسی وجہ سے امام شافعی فرماتے ہیں جس شخص کے گھر میں روٹی اور دانہ نہ ہو اس سے مشورہ مت کرو اس لئے کہ ایسے شخص کی عقل اپنی جگہ پر نہیں ہوتی ہے۔(۱)
امام صاحب کی معاشی سرگرمیوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اپنی تجارت کو فروغ دینا چاہئے اور اس سے نیت ہونی چاہئے لوگوں کو ذریعہ معاش مہیا کرانا، ضرورت مندوں اور محتاجوں کی ضرورت پوری کرنا، علماء اور طلباء کی خدمت کرنا ۔ اگر ان مقاصد کے لئے تجارت کو وسیع کیا گیا تو یہ تجارت کرنا بھی عبادت شمار ہوگا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ابو حنیفہ بطل الحریۃ ص :۳۱