مانگا نہیں تھا، اس لئے اس کی زبان نہیں کھل سکی، بار بار کہنے کا ا رادہ کرتا، لیکن طبعی حیا روک دیتی، آخر یوں ہی اٹھ کر چلا آیا، لیکن امام صاحب نے اپنی فراست سے اس آدمی کی کیفیت اور ارادہ کو محسوس کرلیا جب اٹھ کر جانے لگا تو امام صاحب بھی اس کے پیچھے روانہ ہوئے اور جس گھر میں وہ داخل ہوا اس کو خوب پہچان لیا، جب رات کو تاریکی نے اپنے آغوش میں لے لیا، تب امام صاحب اپنی آستین میں پانچ سو درہم کی ا یک تھیلی لے کر اس کے گھر پر پہونچے، دروازہ کھٹکھٹایا اندھیرا کافی تھا، وہ شخص جب باہر نکلا تو امام صاحب دہلیزپر تھیلی رکھ کر یہ کہہ کر واپس ہوگئے کہ دہلیز پر تھیلی پڑی ہے، یہ تمہارے لئے ہی ہے، تھیلی تو اس نے اٹھالی،لیکن پتہ نہیں چلا کہ کون تھا ،جب اس نے تھیلی کھولی تو پانچ سو درہم کے ساتھ ایک پرزہ ملا جس میں لکھا تھا کہ ابو حنیفہ اس رقم کو لے کر تیرے پاس آیا تھا یہ حلال ذریعہ سے حاصل کی گئی ہے، اس سے اپنی ضرورت پوری کرو۔(۱)
خلاصہ
خلاصہ یہ کہ امام صاحب کی تجارت کوئی معمولی تجارت نہیں تھی اور نہ ہی معمولی سرمایہ سے یہ کاروبارجاری تھا بلکہ اسلامی بینک کا پورا نظام رائج تھا اور بہت بڑے پیمانہ پر تجارت ہورہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے وسیع پیمانہ پر جو کاروبار کو اختیار فرمایا تھا اس کے اندرونی محرکات کیا تھے؟ کیوں کہ جو شخص معمولی معمولی شبہ اور غلطی کی بنا پر تیس تیس ہزار اور کبھی کبھی ستر ہزار دینار خیرات کردیتا ہو اس کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا ہے کہ تجارت کا مقصد مال ودولت کا اکٹھا کرنا اور مالداروں کی فہرست میں نام شامل کرانا تھا،بلکہ ضرور اس کے کوئی اندورنی محرکات تھے، مولانا گیلانی نے تولکھا ہے کہ وہ حکومت کی امداد سے بے نیاز رہنا چاہتے تھے، اس کے ساتھ میرا ایک خیال یہ بھی ہے کہ حضرت امام صاحب کا تجارت سے مقصود لوگوں کو کاروبار اور معاش کے ذرائع مہیا کرانا تھا، اس لئے ان کے کارخانے میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب ابی حنیفہ ۱؍۲۴۴