ایسے غلاموں کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ماذون التجارت‘‘ کہا جاتا تھا، ایک ایک غلام کبھی کبھی تیس تیس ہزار نفع حاصل کرکے لاتا تھا، اس طرح امام صاحب کی تجارت پھیلتی جارہی تھی، موفق احمدمکی،مناقب ابی حنیفہ میں تحریر کرتے ہیں:
امام صاحب کا ایک غلام تھا جو تجارت کرتا تھا، امام صاحب نے مال کثیر اس کے سپرد کی تھی جس کی وہ تجارت کرتا تھا اس نے تیس ہزار درہم نفع حاصل کئے۔
لیکن امام صاحب کے نزدیک صرف مال کا حاصل کرنا مقصود نہیں تھا؛بلکہ حصول مال میں انتہائی احتیاط برتی جاتی تھی اور ہر قسم کے شبہ سے بھی پرہیز کیا جاتا تھا، چنانچہ اسی واقعہ میں موفق نے لکھا ہے :
جب وہ غلام تیس ہزار نفع علیحدہ کرکے امام صاحب کی خدمت میں آیا تو امام صاحب نے اس سے تجارت کی تمام تفصیلات حاصل کی جس میں کوئی ایک صورت وہ بیان کی جس سے امام صاحب کوناگواری ہوئی اس پر امام صاحب نے اس غلام کی ڈانٹ لگائی اور پوچھا کہ کیا تم نے اس طرح حاصل شدہ نفع کو دوسرے تمام نفع کے ساتھ ملادیا ہے، اس نے اثبات میں جواب دیا اس پر امام صاحب نے وہ تیس ہزار درہم فقراء پر تقسیم کردیا اور اس میں سے کچھ نہیں رکھا۔(۱)
بہر حال یہ تو امام صاحب کے احتیاط کا حال تھا؛لیکن اس سے امام صاحب کی تجارت کی وسعت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے جب ایک ایک غلام نفع میں تیس تیس ہزار درہم لارہا ہے تو تمام غلاموں کے مجموعی نفع کی رقم کیا ہوتی ہوگی، بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ ایک غلام ستر ہزار درہم لے کر واپس آیا، اس سے اندازہ لگایئے کہ سال میں صرف غلاموں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ ۱؍۱۷۸، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۸۱ء