اپنے تلامذہ کے حالات معلوم کرنے میں بہت بے نظیر تھے،جو ضرورت مندہوتااس کی غم خواری اور حاجت روائی کرتے اور اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کی تیمارداری کرتے، اگر ان میں سے یا ان کے رشتہ داروں میں سے کوئی مرجاتا تو جنازہ میں شرکت فرماتے، اگر کسی پر کوئی مصیبت آتی تو آپ اس کی ضرورت پوری کرتے،آپ بہت شریف الطبع انسان تھے(۱) صیمری نے نضر بن محمد سے روایت کی ہے کہ امام ابو حنیفہ مذاق کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی مذاق کرتے تھے، میں نے ان کو کبھی بھی قہقہہ مار کر ہنستے نہیں دیکھا، ہاں تبسم فرمایا کرتے تھے۔(۲)
ایک مرتبہ ہارون رشید نے امام ابو یوسف سے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ کے اخلاق بیان کرو، امام ابو یوسف نے فرمایا میرا علم امام ابو حنیفہ کے بارے میں یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محارم کے ارتکاب سے شدت سے رکنے والے تھے، بہت ہی پرہیزگار تھے، اللہ تعالیٰ کے دین کے متعلق وہ بات ہر گزنہیں کہتے جس کو وہ قطعی طورسے نہ جانتے ہوں، ان کو یہ بات پسند تھی کہ اللہ کی اطاعت کی جائے اس کی نافرمانی نہ کی جائے، اہل دنیا سے اپنے زمانہ میں دور رہے، دنیا کی عزت کی رغبت نہیں کی، علم کے وسیع تر میدان میں ہمیشہ غور وفکر کرتے رہتے تھے، نہ بیہودہ گو تھے نہ بکواسی، اگر کوئی مسئلہ پوچھا جاتا اور ان کو علم ہوتا تو جواب دیتے ، اگر استاذ سے سنا ہوا علم نہ ہوتا تو حق کے مطابق قیاس کرتے اور حق کی اتباع کرتے وہ اپنے آپ کی اور دین کی حفاظت کرنے والے تھے، علم اور مال کو بہت زیادہ خرچ کرنے والے تھے، اور تمام لوگوں سے غنی النفس تھے، جب بھی کسی کا ذکر کرتے تو اچھائی سے کرتے، ہارون رشید نے یہ سن کر کہا یہی اللہ کے نیک بندوں کے اخلاق ہوتے ہیں۔(۳)
معافی بن عمران موصلی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے اندر دس ایسی خصلتیں تھیں اگر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) عقود الجمان ص: ۲۷۲ (۲)عقود الجمان ص: ۲۷۳
(۳) الذہبی، حافظ ابی عبد اللہ محمد بن احمد عثمان،مناقب الامام ابی حنیفہ وصاحبیہ ص: ۱۸،احیاء المعارف النعمانیہ ، حیدرآباد ۱۴۱۹ھ