امام صاحب پہلے سے مناظرہ اور علم کلام کے ماہر تھے، حماد اور دیگر شیوخ حدیث کی صحبت سے فقہ اور حدیث میں بھی مہارت پیدا ہوگئی تھی، درس میں آپ کا اصول یہ تھا کسی بھی مسئلے میں آپ قرآن کریم سے استدلال کرتے تھے، پھر احادیث کی طرف متوجہ ہوتے تھے، اس کے بعد اقوال صحابہ کا تتبع فرماتے تھے، اقوال صحابہ میں اقرب الی ا لقرآن اور اقرب الی الحدیث کو ترجیح دیتے تھے، اس کے بعد تابعین کے اقوال کی طرف توجہ نہیں دیتے تھے، بلکہ فرماتے تھے نحن رجال وہم رجال ہم بھی آدمی ہیں اور وہ بھی آدمی ہیں، اس صورت میں اجتہاد فرماتے اور یہ اجتہاد بھی ان کا قرآن وحدیث اور آثار صحابہ سے مختلف نہیں ہوتا تھا، امام صاحب کے اس جامع انداز درس کی بنا پر آپ کے حلقہ درس کو خوب شہرت اور مقبولیت حاصل ہوگئی اور کوفہ کی تمام درسگاہوں کی رونق ماند پڑگئی، بڑے بڑے اہل علم آپ کے حلقہ درس میں شریک ہوتے تھے، حتی کہ بعض اساتذہ مثلا مسعر بن کدام او ر امام اعمش وغیرہ بھی آپ کے درس میں شریک ہوتے اور طلبہ کو شریک ہونے کی ترغیب دیتے تھے، غرضیکہ اسلامی دنیا میں اسپین کے علاوہ کوئی ایسا حصہ نہیں تھا جہاں کے باشندے آپ کے حلقہ درس میں شریک نہ ہوئے ہوں، صاحب الجواہر المضیئہ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کے حلقہ درس میں مکہ، مدینہ، بصرہ، واسط، موصل، دمشق، حزیرہ، رقہ، نصیبن، رملہ، یمن، یمامہ، بحرین ،بغداد ، اہواز، کرمان، اصفہان، بخارا، سمرقند، ترمذ، ہرات، نیشاپور وغیرہ کے باشندے شریک ہوتے تھے۔(۱)
امام صاحب کے حلقہ درس کی مقبولیت کی وجہ آپ کا جامع صفات ہونا تھا، آپ کی حق گوئی، بے نفسی، زہد وتقویٰ قوت استدلال، بے پناہ ذہانت، استنباط کا غیر معمولی ملکہ، حدیث پر دسترس نے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنادیا تھا، علوم کے پیاسے دنیا بھر سے گشت کرکے آتے اور امام صاحب کے چشمہ فیض سے تشنگی حاصل کرتے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)عبد القادر بن محمد بن نصر اللہ ، الجواہر المضیئہ فی طبقات الحنفیہ ۱؍۲۸ ، میر محمد کتب خانہ ،کراچی