سے رہبری ورہنمائی حاصل کرتے ہیں، بلا شبہ آپ امام اعظم کے لقب کے مستحق تھے، اور امت نے آپ کو اس اعزاز سے نوازا، اور یہ لقب آپ کے نام کا اس طرح جز بن گیا کہ جب بھی امام اعظم بولا جاتا ہے تو علم وتحقیق کی دریا کا ہرشناور آپ کو ہی مراد لیتا ہے۔
یہ کتاب حضرت امام اعظم کی روشن زندگی اور آپ کی عظیم علمی خدمات پر ایک سرسری جائزہ ہے، امام صاحب پر عربی اور اردو میں سو سے زائد کتابیں لکھی گئی ہیں، اور وہ بھی علم وفن کے تاجداروں، علمی دنیا میں چمکتے دمکتے روشن ستاروں اور بحر تحقیق کے شناوروں اور قرطاس وقلم کے عظیم مسافروں کی خامہ فرسائی کا نتیجہ ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ بازار حسن میں اس حبشی غلام کی کیا حیثیت ہے؟ اور قرطاس وقلم کے تاجداروں کے درمیان اس گداگر کی کیا جرأت ہے؟ لیکن انگلی کٹا کر شہیدوں کی فہرست میں نام شامل کرنے اور امام صاحب کے عقیدت مندوں کی صف میں جگہ پانے کے لئے ایک بے جا جرأت وجسارت کی ہے۔
اس کتاب کے تین ابواب ہیں: پہلا باب حیات وافکار پرمشتمل ہے، جس میں حسب ذیل پانچ فصلیں ہیں: (۱) امام ابو حنیفہ کی سیرت کے چند نقوش (۲) امام ابو حنیفہ اور تصوف (۳) امام صاحب کی معاشی سرگرمیاں (۴) امام ابو حنیفہ کے سیاسی افکار (۵) امام صاحب کی فراست۔ دوسرا باب علمی خدمات پر محیط ہے، جس میں ترتیب وار تین فصلیں ہیں: (۱) امام ابو حنیفہ بحیثیت محدث (۲) امام ابو حنیفہ اور ان کا فقہی منہج (۳) فقہ حنفی کی تدوین کا شورائی نظام۔ تیسرا باب ہے امام ابو حنیفہ اہل علم کی نظر میں، اس میں بھی ترتیب وار تین فصلیں ہیں: (۱) امام ابو حنیفہ محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل کی نظر میں (۲) امام ابو حنیفہ عبد اللہ ابن مبارک کی نظر میں (۳) امام ابو حنیفہ اہل حدیث علماء کی نظر میں۔
یہ بات بھی قارئین کے گوش گزار کرتا چلو ں کہ یہ کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے، بلکہ چار سال کی مدت میں امام صاحب پر لکھے گئے مختلف مضامین ہیں،لیکن اس کو کتابی شکل میں ترتیب دیتے وقت اس میں تصنیف کا رنگ بھرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور اس کے لئے