تقریبا بیس صفحہ لکھا ہے جس میں جگہ جگہ امام صاحب کا تذکرہ عقیدت واحترام کے ساتھ کیا ہے اور امام صاحب پر کئے گئے اعتراضات کے جوابات مدلل طور پر دئے ہیں،امام صاحب کو اہل سنت اور اہل حدیث کا پیشوا قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
متقدمین کی تحقیق جو دیانت وادب ہر دو امروں کو ملحوظ رکھ کر ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امام صاحب اہل سنت اور اہل حدیث کے پیشوا تھے جیسا کہ باب اول کے ضمیمہ فصل سوم میں آپ کے خصوصی حالات میں ائمہ اہل حدیث مثل ذہبی ،حافظ ابن حجر اور امام ابن تیمیہ کے اقوال سے گزر چکا، اس کے علاوہ اس موقع پر آپ کے طریق اجتہاد کا مختصراً بیان یہ ہے کہ دلائل شرع کے اصول اجتہاد یا بنائی قیاس ہیں تین امر ہیں، قرآن ،حدیث صحیح اور اجماع امت اور چوتھی دلیل قیاس ہے، جو ان تینوں میں سے کسی ایک سے مستنبط ہو، اس تفصیل سے جو ہم نے بیان کی، کسی ا مام حدیث یا امام فقہ کو انکار نہیں۔(۱)
امام صاحب پر ارجاء کے دفاع میں لکھتے ہیں:
بے شک بعض مصنفین نے (خدا ان پر رحم کرے) امام ابو حنیفہ اور آپ کے شاگردوں امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر، حسن بن زیادکو رجال مرجیہ میں شمار کیا ہے جس کی حقیقت کو نہ سمجھ کر اور حضرت امام صاحب ممدوح کی طرز زندگی پر نظر نہ رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے اسے خوب اچھالا ہے؛ لیکن حقیقت رس علماء نے اس کا جواب کئی طریق پر دیا ہے۔(۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) میرسیالکوٹی ،ابراہیم ، تاریخ اہل حدیث :۳۱۲، مکتبہ قدسیہ اردو بازار لاہور
(۲) ابراہیم سیالکوٹی ،تاریخ اہل حدیث ص: ۷۷، مکتبہ قدوسیہ لاہور