میں نہیں ہوتا؛ لیکن انھوں نے امام صاحب کے بعد امام ابو یوسف سے فقہ حنفی کی تکمیل کرکے تدوین فقہ کی طرف خاص توجہ دی،اور حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی کو متاخرین تک نقل کرنے کا سہرا امام محمدؒ کے سرجاتا ہے اور آج امام محمدؒ کی کتابیں ہی احناف کے لیے آنکھوں کا سرمہ ہیں،فقہ حنفی میں امام محمد کی حیثیت وہی ہے جو کسی عالیشان محل کے صحن میں خوبصورت برقی قمقموں والی جھومر کی ہوتی ہے یعنی فقہ حنفی کی پوری چمک دمک امام محمد سے وابستہ ہے، کوئی حنفی امام محمدؒ کی کتابوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ امام محمدؒ کو فقہ حنفی کا دوسرا بازو شمار کیا جاتا ہے،امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف سے تفقہ فی الدین کے منازل طے کرنے کے بعد انہیں شیخ المدینہ امام مالک بن انس سے بھی فقہ وحدیث پڑھنے کا موقع ملا وہ تین سال ان کی خدمت میں رہے، امام مالک سے انہوں نے موطا پڑھی اور اسے مدون کیا، ان کا تیارکردہ موطا کا نسخہ اصح النسخ شمار ہوتا ہے، انہوں نے امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف سے براہ راست فقہ حنفی روایت کی اور اس روایت میں اہل مدینہ اور اہل کوفہ کے اسالیب میں توافق پیدا کیا، ان کی جو تالیفات صغیر کے نام سے موسوم ہیں ان میں وہ مسائل ہیں جن میں وہ ابو یوسف سے متفق ہیں، تاہم کبیر کے نام سے موسوم کتب انہوں نے امام ابو یوسف کے سامنے پیش نہیں کیا تھا، امام محمد کی کتابیں فقہ حنفی کا اولین مرجع شمار کی جاتی ہیں،امام محمدؒ کی کتابیں استناد کے اعتبار سے دو درجوں میں منقسم ہیں:
قسم اول: کتب ظاہر الروایت ہیں جو مندرجہ ذیل کتب ہیں:(۱) جامع صغیر (۲) جامع کبیر (۳) سیر صغیر (۴) سیر کبیر (۵) مبسوط (۶) زیادات، ان کو ’’اصول‘‘ بھی کہا جاتا ہے، فقہ حنفی کا زیادہ تر اعتماد انہی کتابوں پر ہے۔
قسم ثانی: اس میں وہ کتابیں ہیں جو آپ کی طرف منسوب ہونے میں قسم اول کے برابر نہیں ہیں ان میں یہ کتابیں شامل ہیں: (۱) کیسا نیات (۲) ہارونیات (۳) جرجانیات (۴) رقیات (۵)الزیادات، مندرجہ بالا کتابوں کو غیر ظاہر الروایت اور