بن اسحاق م ۱۹۸ھ(۳۳) حفص بن عبد الرحمن م ۱۹۹ھ(۳۴) ابو مطیع بلخی م ۱۹۹ھ (۳۵) خالد بن سلیمان م ۱۹۹ھ(۳۶) عبد الحمید م ۲۰۳ھ (۳۷) حسن بن زیاد م ۲۰۴ھ (۳۸) ابو عاصم النبیل م ۲۱۲ھ(۳۹) مکی بن ا براہیم م ۲۱۵ھ(۴۰) حماد بن دلیل م ۲۱۵ھ۔ (۱)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کی ایک فقہ اکیڈمی تھی جس میں ان کے ممتاز تلامذہ ان کے معاون اور شریک کار تھے اور امام صاحب مجتہد فیہ مسائل کو اجتماعی طور پر حل کیا کرتے تھے؛ لیکن ان حضرات کے اسمائے گرامی اور سنین ولادت ووفات کا عمومی جائزہ لیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ تمام تلامذہ اکیڈمی کے قیام کے وقت سے ہی ان کے شریک کار تھے، جیسے کہ امام محمدؒ کی سن پیدائش ۱۳۲ھ اور یحییٰ بن ابوزائدہ کی سن پیدائش ۱۲۰ھ ہے اور عبد اللہ بن مبارک کی سن پیدائش ۱۱۸ھ ہے جب کہ امام صاحب کی شوریٰ ۱۲۰ھ یا ۱۲۸ھ سے قائم ہے، تو یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ یہ تلامذہ اسی وقت سے ان کی کمیٹی میں داخل ہوگئے تھے، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام صاحبؒ نے وقتاً فوقتاً اپنے تلامذہ کو اپنے کارِ اجتہاد میں شریک کیا تھا، آپ کے بعض تلامذہ ایسے بھی تھے کہ جب آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے تو آپ سے جدا ہونا حرماں نصیبی تصور کیا اور تاحیات آپ کے علمی سرچشمے سے تشنگیٔ علم کو فرو کرتے رہے، یہی تلامذہ جو در حقیقت خود بھی اجتہاد کے درجے پر فائز تھے، آپ کی اکیڈمی کے رکن رکین تھے، انہیں خادمانِ فقہ حنفی نے تقریباً تیس سال کی مدت میں فقہ حنفی کی تدوین کا عظیم الشان اور لازوال کارنامہ انجام دیا ہے،اسی بنا پر یہ تعداد کتابوں میں مختلف ہے، اس لئے کہ بعض حضرات اس کمیٹی میں چند سال تک شریک رہے، پھر اپنے وطن کو چلے گئے، اس طرح کمیٹی کے افراد میں کمی بیشی ہوتی رہی،جزاہم اللہ خیر الجزاء۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الجواہر المضیئہ:۱؍۱۴، بحوالہ امام اعظم ابو حنیفہ،مفتی عزیز الرحمن بجنوری، ص:۱۷۸