بعض روایتوںمیں دین کے بجائے ’’علم‘‘ کا لفظ ہے، حافظ جلال الدین سیوطی شافعیؒ نے حضورؐ کی اس پیش گوئی کا مصداق امام ابو حنیفہؒ کو قرار دیا ہے۔(تبییض الصحیفۃ: ۳ ،۴) غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خاں صاحب نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ اس حدیث کا مصداق امام ابو حنیفہؒ اور جملہ محدثین ہیں۔
’’صواب آنست کہ ہم امام دراں داخل است‘‘ (اتحاف النبلاء:۴۲۴)
امام صاحبؒ کی ذات میں اللہ نے وہ خوبی جمع کردی تھیں، جو ایک انسان کو ثریا کی بلندی تک پہونچاتی ہیں، چنانچہ جہاں آپ ورع وتقویٰ، خوف وخشیت، عبادت وریاضت، حلم وبردباری، حق گوئی وبے باکی اور سخاوت وفیاضی میں اپنی مثال آپ تھے،وہیں آپ علومِ تفسیر وحدیث، علم کلام، اور خصوصیت کے ساتھ فقہ وفتاویٰ میں آفتاب ومہتاب تھے، اسی طرح انتہائی ذہین وفطین اور غیر معمولی اجتہادی صلاحیت کے حامل تھے، یہ وہ خوبیاں ہیں، جن کی بدولت آپ’’امام اعظم‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے، اور خود امام شافعیؒ جیسے فقیہ نے بھی اعتراف کیا کہ : الناس في الفقہ عیال علی أبي حنیفۃ(تذکرۃ الحفاظ: ۱ ؍ ۹ ۱۵)یعنی لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہؒ کے محتاج ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے امام صاحب کی علمی وفقہی خدمات کو وہ قبول عام عطا فرمایا کہ دور عباسی سے لے کر آج تک عالم اسلام پر فقہ حنفی سکہ رائج الوقت کی طرح چھائی رہی، خصوصاً کثیر مسلم آبادی کے ممالک ہندوپاک، بنگلہ دیش، افغانستان، ترکی وغیرہ ہیں کہ ہمیشہ اسی فقہ کے متبعین کا غلبہ رہا، ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
حقیقت یہ ہے کہ جن چند منتخب ہستیوں نے اپنے تابندہ نقوش کی وجہ سے پوری دنیا پر اثر ڈالا ہے، ان میں ایک اہم نام آپؒ کا ہے۔
امام صاحبؒ کی حیات وخدمات پر درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں، اور ان شاء اللہ آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی، پیشِ نظر کتاب ’’امام ابو حنیفہؒ- سوانح وافکار‘‘ بھی اس میں