جب کسی ایک قول پر سب کی رائے جم جاتی تو امام ابو یوسفؒ اصول میں درج کردیتے۔
اس کے بعد بھی اگر کسی کا اختلاف رہ جاتا تو ان کے اختلاف کے ساتھ بقید تحریر لایا جاتا اور اس امر کا اہتمام والتزام ہوتا کہ جب تک ایک مسئلہ حل نہ کرلیا جائے التواء میں نہ ڈالا جائے؛ علامہ کردری کا بیان سنتے چلئے، فرماتے ہیں:
إذا وقعت لہم مسئلۃ یدیرونہا حتی یضیؤنہا
جب اس مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو اس کو آپس میں خوب گردش دیتے، یہاں تک کہ بالآخر اس کی تہ تک پہنچ کر اس کو روشن کرلیتے۔(۱)
امام صاحب محض اپنی ذاتی رائے کی تدوین پسند نہیں کرتے تھے،جب تک خود اس پر اچھی طرح غور نہ فرمالیتے اور مجلس شوریٰ کے ذریعہ بھی اس کاہر پہلو نمایاں نہ ہوجاتا،اس وقت تک اس کو قید ِتحریر میں نہیں لایا جاتا، یہی وجہ ہے کہ کبھی امام ابو یوسفؒ، امام صاحب کی رائے کے بغیر تنقیح وتحقیق لکھ دیتے تو امام صاحب ان کو متنبہ فرماتے:
لا تکتب کل ما تسمع مني فإني قد اری الرأي الیوم وأترکہ غدا وأری الرأي غدا وأترکہ في غدہ۔
ہر وہ چیز جو مجھ سے سنتے ہو مت لکھ لیا کرو؛ کیوں کہ اگر میں آج کوئی رائے قائم کرتا ہوں تو کل اُسے چھوڑ دیتا ہوں اور کل کی رائے پرسوں ترک کردیتا ہوں۔(۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب کردری۲؍۳
(۲) الزیلعی، ابو محمد عبد اللہ بن یوسف،تقدمہ نصب الرایہ: ۱؍۳۸، طریقۃ ابی حنیفہ فی التفقیہ، دارالکتب الاسلامیہ لاہور ۱۹۳۸ء