تھے، بلکہ کتاب وسنت اور اقوال صحابہ کی موجودگی میں قیاس کو جائز نہیں سمجھتے ہیں، ابن حجر مکی نے الخیرات الحسان میں امام صاحب کا قول نقل کیا ہے:
لیس لأحد أن یقول برأیہ مع کتاب اللہ تعالی ولا مع سنۃ رسول اللہ ولا مع ما أجمع علیہ أصحابہ۔کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور صحابہ کے اجماعی اقوال کی موجودگی میں اپنی رائے اور قیاس پیش کرنا جائز نہیں۔(۱)
ان تمام شہادتوں سے یہ بات بالکل نمایا ں ہوجاتی ہے کہ امام صاحب نے انتہائی مجبوری میں قیاس کی طرف توجہ کی ہے ؛ چنانچہ وہبی سلیمان غاوجی نے امام صاحب کا قول نقل کیاہے : نحن لا نقیس إلا عند الضرورۃ الشدیدۃ (۲) امام صاحب شدید ضرورت پر ہی قیاس کو قابل اعتناء سمجھتے تھے مزید یہ کہ قیاس کرتے وقت آپ احادیث و آثار سے آزاد ہوکر کوئی رائے قائم نہیں کرتے تھے؛بلکہ اس کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ شرعی احکام میں جو بھی رائے قائم کریں وہ سنت و اثر سے ماخوذ و مستنبط ہو پس یوں سمجھنا چاہئے کہ ظاہرمیں تو وہ امام صاحب کا قول ہوتا تھا؛لیکن حقیقت میں وہ حدیث کی تفسیر توضیح ہوتی تھی اسی لیے امیر المؤمنین فی الحدیث عبد اللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے ۔
’’ لا تقولوا رأی أبي حنیفۃ ولکن قولو ا إنہ تفسیر الحدیث ‘‘۔( ۳)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قیاس امام صاحب کے نزدیک ایک دلیل شرعی ہے؛لیکن اس کا درجہ پانچویں نمبر کاہے اوراس درجہ میں قیاس تمام ائمہ کے نزدیک حجت اور قابل عمل ہے علامہ ابن القیم نے اعلام الموقعین میں امام احمد بن حنبل کے اصول مذہب میں پانچویں نمبر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الخیرات الحسان ص :۳۰
(۲) ابو حنیفۃ النعمان امام الائمۃ الفقہاء ص: ۱۳۸
( ۳) مناقب ابی حنیفہ للموفق :۲؍۱۱۶