فرمادیا) حالانکہ اہل حدیث کا اس حدیث کے ضعف پر اجماع ہے اسی طرح نبیذ تمر سے وضو کے جواز کی حدیث کو قیاس پر ترجیح دی ہے حالانکہ اکثر محدثین کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ حیض کی اکثر مدت دس دن ہے کو قیاس پر ترجیح دی ،اسی طرح آپﷺ کی حدیث کہ مہرکی اقل مقدار دس درہم ہے کو ترجیح دی ہے قیاس پر حالانکہ دونوں حدیث بالاتفاق ضعیف ہیں۔
ابن القیم کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث ضعیف کے مقابل میں امام صاحب کے نزدیک قیاس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ؛ اسی لیے قیاس کو چھوڑ کر حدیث ضعیف پرعمل کرتے ہیں،علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
من ظن بأبي حنیفۃ أو غیرہ من أئمۃ المسلمین أنہم لیتعمدون مخالفۃ الحدیث الصحیح لقیاس أو غیرہ فقد أخطأ علیہم وتکلم إما بظن أو لہوی۔
جو شخص امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ مسلمین کے ساتھ یہ گمان کرتا ہے کہ یہ حضرات جان بوجھ کر حدیث صحیح کی مخالفت کرتے تھے، قیاس یا کسی اور وجہ سے تو اس نے ان حضرات پر خطا کا ارتکاب کیا اپنے ظن اور خواہش نفس کی بنا پر۔ (۱)
ان تمام وضاحتوں اور شہادتوں کے باوجود اگر کوئی امام کی طرف اس بات کو منسوب کرے کہ امام صاحب حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس پرعمل کرتے ہیں یا ان کی فقہ کی بنیاد ہی قیاس پر ہے تو یہ حق سے چشم پوشی حسد وعناداور احناف کے ساتھ ظلم و ستم نہیںتو اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ابن القیم، ابوعبداللہ محمد بن ابی بکر،حاشیہ اعلام الموقعین۱؍۸۲۔ دارالکتب العربی بیروت ۱۹۹۶ء