نوبت ابراہیم نخعی، عامر شعبی، محمد بن سیرین ، حسن بصری ، عطاء، سعید بن مسیب ( متعدد حضرات تابعین کے نام شمار کئے) تک پہونچتی ہے تو ان حضرات نے اجتہاد کیا ہے ، لہذا مجھے بھی حق ہے کہ ان حضرات کی طرح اجتہاد کروں، یعنی ان حضرات کے اقوال پر عمل کرنے کی پابندی نہیںکرتا؛بلکہ ان ائمہ مجتہدین کی طرح خدائے ذو المنن کی بخشی ہوئی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لاتا ہوں اوراپنے فکر و اجتہاد سے پیش آمدہ مسائل حل کرنے کی سعی پیہم کرتا ہوں۔
فضیل بن عیاض امام صاحب کے فہم استنباط پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
إن کان في المسئلۃ حدیث صحیح تعبہ وإن کان عن الصحابۃ والتابعین فکذالک وإلا قاس فأحسن القیاس۔( ۱)
اگر کسی مسئلے میں حدیث صحیح ہو تو امام صاحب اس کی پیروی کرتے ہیں، اسی طرح اگر صحابہ وتابعین سے کچھ منقول ہو تو اس کی پابندی کرتے ہیں، ورنہ قیاس کرتے ہیں اور بہترین قیاس کرتے ہیں۔
عبد الحلیم جندی اپنی کتاب ’’ابو حنیفہ بطل الحریۃ ‘‘میں لکھتے ہیں:
سئل أبو حنیفۃ: إذا قلت قولا وکتاب اللہ یخالف قولک؟ قال أترک قولي لکتاب اللہ، قیل فإذا کان خبر رسول اللہ یخالف قولک؟ قال أترک قولي بخبر رسول اللہ، قیل فإذا کان قول الصحابي یخالف قولک؟ قال أترک قولي بقول الصحابي قیل فإذا کان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
( ۱) ابن حجر مکی، شہاب الدین، الخیرات الحسان ، مطبع السعادۃ بحوار مصر،۱۳۲۴