متحدومتفق ہیں، امام صاحب نے اپنے طریقۂ استنباط کی وضاحت بالکل جلی اور روشن الفاظ میں کی ہے جس کو امام صاحب کے اکثر سوانح نگاروں نے نقل کیا ہے:
إنی آخذ بکتاب اللہ إذا وجدتہ فما لم أجد فیہ أخذت بسنۃ رسول اللہ والآثار الصحاح التي فشت في أیدي الثقات عن الثقات فإذا لم أجد في کتاب اللہ ولا سنۃ رسول اللہ أ خذت بقول أصحابہ من شئت وادع من شئت ثم لا أخرج عن قولہم إلیٰ غیرہم وإذا انتہی الأمر إلیٰ ابراہیم والشعبي والحسن والعطاء وابن سیرین وسعید بن المسیب وعدّ رجالا فقوم اجتہدوا فلی ان اجتہد کما اجتہدوا۔(۱)
میں(شرعی احکام میں ) اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرتا ہوں جب وہ احکام مجھے کتاب اللہ میں مل جائیں اور جو احکام مجھے قرآن میں نہیں ملتے تو پھر سنت رسول اللہ اوران صحیح آثار پر عمل کرتا ہوں جو ثقہ راویوں سے منقول ہوکر ثقہ راویوں میں پھیل چکے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ کتاب اللہ اور حدیث نبوی میں نہیں پاتا ہوں تو صحابہ کے اقوال میںسے جن کا قول کتاب وسنت کے قریب پاتا ہوں اس پرعمل کرتاہوں( البتہ حضرات صحابہ کے اقوال سے باہر نہیں جاتا کہ ) سارے صحابہ کے قول کو چھوڑ کر دوسرے قول کو اختیارکروں اور جب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب ابی حنیفہ للامام الموفق : ۱؍۸۰،دارالکتب العربی بیروت ۱۹۸۱ء۔خطیب بغدادی، تاریخ بغداد ۱۳؍ ۳۶۵، دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۷ء