کے شاگرد وںسے ہی مروی ہیں، گیارہ حدیثیں مکی بن ابراہیم سے اور پانچ حدیثیں ضحاک بن مخلد سے مروی ہیں(۱) (۶) علم حدیث میں سب سے پہلی تصنیف آپ کی ’’کتاب الآثار‘‘ ہے اور فقہی ترتیب پر یہ پہلی کتاب ہے، امام مالک نے بھی ترتیب میں کتاب الآثار سے استفادہ کیا ہے، علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
آپ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم حدیث کو ابواب فقہیہ پر مرتب فرمایا ہے، پھر امام مالک نے موطا کی ترتیب میں آپ کی اتباع کی آپ سے پہلے کسی نے یہ قدم نہیں اٹھایا۔(۲)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ علم حدیث کے روشن مینار ہیں جن کی ضیابار کرنوں سے پورے عالم نے روشنی حاصل کی ہے، آپ جس طرح فقہ میں امامت واجتہاد کے اعلی مرتبہ پر فائز تھے بالیقین حدیث میں بھی آپ اپنے بعد والوں کے لئے قدوہ اور نمونہ تھے، امام صاحب کے محدثین اساتذہ وتلامذہ کی طویل فہرست،روایت حدیث میں مضبوط شرائط، جرح و تعدیل میں آپ کے قول پر اعتماد، فن حدیث میں ابواب کی ترتیب پر آپ کی فائق تصنیف، آپ کے مسانید کی محدثین کے یہاں اہمیت اور روایت حدیث کے ساتھ درایت حدیث میں آپ کی امتیازی حیثیت کو دیکھ کر بلا خوف وتردد نہایت وثوق واعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ امام صاحب ’’امام المحدثین‘‘ ہیں، ان تمام حقائق وشہادات کے باوجود اگر کسی کو امام صاحب کے علم حدیث میں مقام ومرتبہ کا پتہ نہیں چلتا تو کہنا پڑے گا ؎
گرنہ بیند بروز شپرۂ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گناہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) امام اعظم امام المحدثین، خواجہ محمد شریف ص: ۷۱
(۲) علامہ سیوطی،تبییض الصحیفہ ص :۲۱، دارالکتب العلمیہ بیروت، ۱۹۹۰ء