عمروبن دینار، ابو زبیر، عطاء، قتادہ، ابراہیم، نافع اور ان جیسے بزرگوں سے۔(۱)
غور کرنے کی بات ہے کہ امام صاحب نے جن اساتذہ کا شمار کرایا ہے ان میں اکثر علم حدیث کے بلند مقام پر فائز ہیں اور بعض تو امیر المومنین فی الحدیث کی حیثیت سے معروف ومشہور ہیں۔
علم حدیث میں حضرت امام کی بالادستی، تبحر معلومات اور اس میدان میں آپ کی رفعت شان کا نتیجہ تھا کہ وقت کے بڑے بڑے محدثین نے آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا ہے، ابن حجر مکی لکھتے ہیں:
ائمہ محدثین اور علماء راسخین میں سے جلیل القدر ائمہ نے جن کی عظمت شان پر اتفاق ہے آپ کی شاگردی اختیار کی، جیسے عبد اللہ بن مبارک، امام لیث بن سعد وغیرہ اور آخر میں لکھتے ہیں ناہیک بہؤلاء الأئمۃ آپ کی عظمت قدر کو سمجھنے کے لئے یہ ائمہ کافی ہیں۔ (۲)
امام بخاری تاریخ کبیر میں لکھتے ہیں کہ امام صاحب سے عباد بن عوام، ابن المبارک، ھشیم، وکیع، مسلم بن خالد، ابو معاویہ اورمقری وغیرہ روایت کرتے ہیں (۳) بہر حال امام صاحب کے شاگردوں کی تعداد بے شمار ہے،ابن حجر عسقلانی نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں آپ کے شاگردوں کا تذکرہ کیا ہے، جو سب کے سب حفاظ حدیث ہیں۔(۴)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مقدمہ اعلاء السنن، ابو حنیفہ واصحابہ المحدثون۲۱؍۲۶، مکتبہ اشرفیہ دیوبند
(۲) الخیر ات الحسان ص: ۱۸
(۳) بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر ۲۲۵۳، باب نافع بن عتبۃ ۸؍۸۱، ڈیجیٹل لائبریری
(۴) تہذیب التہذیب، باب من اسمہ نعمان ۸۱۷-۱۰؍۴۴۹، ڈیجیٹل لائبریری