سے با ز پرس کرے ۔(۱)
امام صاحب کے اس طویل خطاب میں جس کاچند اقتباس یہاں پیش کیا گیا ہے قضاء اور عدلیہ کے تعلق سے امام صاحب کی رائے بہت نمایاں ہوجاتی ہے ۔
خلاصہ
اس مختصر مضمون سے حضرت الامام کا سیاسی نظریہ بآسانی سمجھا جاسکتا ہے، اسلامی نظام حکومت میں عدل وانصاف، اظہار رائے کی آزادی، عدلیہ کا با اختیار ہونا، بیت المال کے نظام کا صاف وشفاف ہونا ،امام صاحب کی نگاہ میں لازمی اور ناگزیر امر تھا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جس طرح عام لوگوں کے ساتھ ضروری ہے اسی طرح حکومت کے ساتھ بھی ضروری ہے اور اگر حکومت عدل وانصاف پر قائم نہ ہو اور تبدیلی کے لئے مناسب ذرائع اور وسائل ہوں تو ایسی صورت میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنا اور تختۂ حکومت کو زیروزبرکردینا جائز ہے، یہ و ہ افکار ہیں جس کے لئے انسان میں جرأت، شجاعت،بلند کرداری، استغنائیت جیسے لازمی صفات کی ضرورت پڑتی ہے اور امام صاحب اس جیسے اعلی اور عبقری صفات سے متصف تھے، اس لئے انہوں نے ابن ہبیرہ اور منصور کے کوڑوں اور قید کی سلاخوں کو تو برداشت کرلیا؛لیکن حکومت کے کسی خلاف ِشرع حکم کے سامنے سرنگوں نہیں کیا ہے، جزاہ اللہ خیر الجزاء۔
mvm
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) موفق مکی ۲؍۱۰۰-امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی ص: ۴۹۷