قطعی رائے یہ تھی کہ اسے انصاف کرنے کے لئے انتظامیہ کے دباؤاور مداخلت سے نہ صرف آزاد ہونا چاہئے،بلکہ قاضی کو اس قابل ہونا چاہئے کہ خودخلیفہ بھی اگر لوگوں کے حقوق پر دست درازی کرے تو وہ اس پر اپنا حکم نافذ کر سکے ،امام صاحب کو اخیر زمانہ میں جب اپنی وفات کا یقین ہوگیا تھا توانہوں نے اپنے تلامذہ کو جمع کرکے خطاب فرمایا:
پس اب وقت آگیا کہ آپ لوگ میری مدد کریں میںیہ کہنا چاہتا ہوںکہ تم میںسے ہر ایک عہدہ قضا ء کی ذمہ داریوںکے سنبھالنے کی پوری صلاحیت اپنے اندر پیدا کر چکا ہے،اوردس آدمی تو تم میں ایسے ہیں جو صرف قاضی ہی نہیں؛بلکہ قاضیوں کی تربیت کا کام بخوبی انجام د ے سکتے ہیں ،اللہ کا واسطہ دیتے ہوئے ،اور علم کا جتنا حصہ آپ لوگوں کو ملا ہے ، اس علم کی عظمت و جلالت کا حوالہ دیتے ہوئے آپ لوگوں سے میری یہ تمنا ہے کہ اس علم کو محکوم ہونے کی بے عزتی سے بچائے رہنا، اور تم میں سے کسی کوقضا کی ذمہ داریوں میں مبتلا ہونے پر اگر مجبور ہونا پڑے تو میں یہ کہہ دینا چاہتاہو ںکہ ایسی کمزوریاںجو مخلوق کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں جان بوجھ کر اپنے فیصلوں میں جو ان کا ارتکاب کریگا اس کو معلوم ہونا چاہئے ایسے آدمی کا فیصلہ جائز نہ ہوگا اور نہ قضاء کی ملازمت اس کی حلا ل ہوگی ،جو تنخواہ اس سلسلے میں اس کو ملے گی وہ اس کے لئے پاک نہ ہوگی ،قضاء کا عہدہ اسی وقت تک صحیح رہتا ہے ،جب تک کہ قاضی کا ظاہر و باطن ایک ہو ،اور اسی قضاء کی تنخواہ حلال ہے ‘‘اس تقریر کا آخری فقرہ تھا ،امام (یعنی مسلمانوںکا بادشاہ اور امیر اگر مخلوقِ خدا کے ساتھ کسی غلط رویہ کو اختیار کرے تو اس امام سے قریب ترین قاضی کا فرض ہوگا کہ اس