میری اور میری حکومت کے وفادار رہیںگے اور کھبی سر کشی پرآمادہ نہ ہوںگے ،معاہدہ میں انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ اگر حکومت عباسیہ کے خلاف وہ کبھی بھی بغاوت پر آمادہ ہوں تو خلیفہ کو حق ہوگاکہ وہ ہر ایک کو قتل کردے ،منصور نے پوچھا میرے گورنر کے خلاف وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،کیا ان کی خوںریزی خود ان کے معاہدہ کی رو سے میرے لئے جائزنہیںہوچکی ہے؟چند لوگوں کے موافق رائے آجانے کے بعد منصور امام صاحب کی طرف متوجہ ہوکر بولا ’’شیخ‘‘آپ کی کیا رائے ہے ،امام صاحب منصور کے بدنیتی ،اور اس کی ذہنی کج روی کو محسوس کر چکے تھے ، اس لئے ا مام صاحب نے تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’کیا اس وقت میں نبوت کی جانشینی کے جو مدعی ہیں ان کے سامنے نہیں کھڑا ہوں ،توقع ہے کہ جس گھر میں اس وقت ہوں یہ مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے ،،منصور نے کہا ایسا ہی ہے اس کے بعد امام صاحب نے فرما یا ’’امیرالمؤمنین موصل والوں نے اگر اس قسم کا کوئی معاہدہ آپ سے کیا تھا ،یعنی بغاوت کی صورت میں ان کا خون خلیفہ کیلئے حلال ہوجائیگا تو آپ کو معلوم ہوناچاہئے کہ ایک ایسی چیز کا اختیار آپ کو سپرد کیا جس کے سپرد کرنے کا شرعا انہیںقطعا اختیار نہیں تھا ،اس کے بعد بھی اگر آپ ان کی خوں ریز ی پر آمادہ ہوںگے تو ایسی چیز میں آپ ہاتھ ڈالیںگے جو آپ کیلئے کسی طرح جائز نہیں ،امیرالمؤمنین خدا کا عہد زیادہ مستحق ہے کہ اس کا ایفا کیا جائے ،،(۱)
مذکورہ واقعہ سے امام صاحب کی جرأت وحق گوئی اور ظالم بادشاہ کے سامنے اظہارحق کا بر ملا اظہار نمایاںطور پر دکھائی دیتا ہے ، مجلس کی بر خواستگی کے بعد منصور امام صاحب کی طرف متوجہ ہوکر بولا ’’شیخ‘‘ بات وہی ہے جو آپ نے کہی ،امام صاحب کی یہی جسار ت وحق گوئی شاہی کیمپ سے نجات کا ذریعہ ثابت ہوئی، منصور آپ کی بے باکی،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب للکردری ص:۱۷