گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
نبی ﷺ کے حوالے کردی۔ نبی ﷺ نے وہ رقم لی اور آنے والے صاحب کودے دی اور وہ صاحب اسے لے کر واپس چلے گئے کہ اپنے علاقے والوں کی مدد کریں۔ زید بن سعنّہ کہتے ہیں کہ ٹائم پورا ہونے سے دو، تین دن قبل میں آیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ کے پاس حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور چند صحابہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں۔ میں نبی ﷺ کے اخلاق کو دیکھنا تھا کہ ان کے اخلاق کیسے ہیں؟ ان کا قول اور فعل کیسا ہے؟ کہتے ہیں کہ میں نے آتے ہی نبی ﷺ کے لباس، قمیص کو پکڑلیا اور عجیب انداز سے غصہ میں کہا: اے عبدالمطلب کی اولاد! (یہ دیکھیں کہ باپ دادا کے طعنے دیے جا رہے ہیں) آپ اپنا وعدہ پورا کریں۔ خدا کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ تم بنو عبدالمطلب والے ٹال مٹول کرتے ہو۔ زید بن سعنّہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے چہرے کو دیکھا، اتنی سخت کلامی کے بعد بھی نبی ﷺ کا چہرہ نارمل تھا، آپﷺ مسکرارہے تھے۔ پھر میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھا تو ان کا چہرہ غصے کی وجہ سے سُرخ ہو رہا تھا۔ غصے کی شدت سے مجھے دیکھنے لگے اور کہا: اے اللہ کے دشمن! تم اللہ کے رسولﷺ سے اس لہجے میں بات کر رہے ہو جو میں سن رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے حق کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا، تمہیں قتل کردیتا۔ یہاں غور کریں کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو غصہ تو ان پر بہت تھا کہ انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ کی گستاخی کی، بے ادبی سے بات کی، لیکن اس غصے کے عالم میں بھی کتنا خیال تھا دوسرے کے حق کا کہ اس کو کہا کہ تیرا حق ادا کرنے کا مسئلہ نہ ہوتا تو تمہیں میں سبق سکھا دیتا۔ نبی ﷺ نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو جب ایسے دیکھا تو نبی ﷺ نے بہت ہی تحمل مزاجی کے ساتھ، نرمی کےساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عمر! چاہیے تو یہ تھا کہ تم