گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
کہ میں ساری چیزوں کو چیک کروں گا، نشانیوں کو دیکھوں گا، پھر کسی بات پر پہنچوں گا۔ اللہ کی شان کہ انہوں نے ساری نشانیوں کو دیکھ لیا، لیکن دو نشانیاں ایسی تھیں جو انہیں فوری طور پر نہ ملیں۔ (۱) نبی کا حلم اس کے جہل پر غالب ہوتا ہے۔ (۲) جتنا بھی نبی کے ساتھ جہالت کا معاملہ کیا جائے تو نبی کا حلم اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ نبی کریمﷺ کے اخلاق، برداشت، اورحلم کو کھلی آنکھوں دیکھنا چاہتا تھے۔ کسی کو چیک کرنے کے لیے نماز روزہ نہیں دیکھا جاتا، مسجد میں آنا جانا نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس کے معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ اخلاق کے اعتبار سے انسان پر کھاجاتا ہے۔ زید بن سعنّہ کہتے ہیں کہ میں اس موقع کی تلاش میں تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ نبی ﷺ چند صحابہ رضى الله عنه کے ساتھ تھے اور میں نبی ﷺ کے قریب ہی تھا۔ دور سے ایک صاحب آئے اور انہوں نے نبی ﷺ کہا کہ میں فلاں علاقے سے آیا ہوں۔ وہاں غربت ہے، لوگ پریشان ہیں، تکلیف میں ہیں، ڈر ہے کہ کہیں اسلام ہی سے نکل جائیں۔ اگر آپ ان کی مالی مدد فرمائیں تو ان کے لیے آسانی ہوجائے گی۔ نبی ﷺ نے بات سنی تو فرمایا کہ اس وقت تو میرے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ زید بن سعنّہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچ لیا کہ یہی موقع ہے۔ چناں چہ میں نے قریب ہو کر کہا: اے محمد! (یہود سرکارِ دو عالمﷺ کو ایسے ہی مخاطب کیا کرتے تھے) اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں۔ اس کے بدلے آپ مجھے فلاں باغ کی کھجوریں اتنی مدت میں دے دینا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں، اے یہودی! اتنی مدت میں نہیں، بلکہ اتنی مدت میں دیں گے اور باغ متعین نہیں ہوگا۔ (حضور پاکﷺ نے ایک خاص مدت کا ذکر کیا اور باغ کا عموم فرمایا) چناں چہ اس سے بات طے ہوگئی۔ زید بن سعنّہ کہتے ہیں کہ میں نے وہ رقم