گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
کر لائن بنا کر کھڑے ہوںگے۔ اور اللہ ربّ العزّت کی طرف سے تو روز اعلان ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! تہجد کے وقت مجھے منالو، میں مان جاؤں گا۔ مجھ سے معافی مانگو میں معاف کردوں گا، مجھ سے دعا مانگو میں رزق دوں گا۔ بہر حال معلوم ہوا کہ عصر کے بعد سونا بھی مکروہ ہے اور طلوعِ شمس سے پہلے سونا بھی مکروہ ہے۔ یہ آرام رزق میں بے برکتی اور نحوست کو لے آتا ہے۔ نمازِ عصر کے بعد سونا عقل کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ نماز مغرب کے بعد بھی سونا منع ہے۔ حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ عشاء سے قبل سونے کو اور عشاء کے بعد (بغیر ضرورت کی) گفتگو کو ناپسند کرتے تھے۔ (متفق علیہ) مغرب کے بعد عشاء کا وقت قریب ہی ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی سو جاتا ہے تو اس کی عشاء کی جماعت نکل جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر وہ تھکا ہوا ہے، کام کا غلبہ زیادہ ہونے کی وجہ سے، یا سفر پر ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے تو ہو سکتا ہے کہ پوری نماز ہی قضا ہو جائے۔ البتہ اگر کوئی بہت ہی زیادہ تھکا ہارا ہے تو کسی کی ڈیوٹی لگا دے کہ مجھے عشاء کی جماعت کے وقت اُٹھا دے کہیں میری جماعت یا نماز فوت نہ ہو۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اگر عشاء کے قبل سستانا چاہتے تو کسی کی ڈیوٹی لگا دیتے کہ مجھے عشاء سے قبل اُٹھادینا۔ (فتح الباری لابن رجب: ۴؍۳۹۲) اور نماز عشاء پڑھنے کے بعد آپﷺ کا عمل کیا تھا؟ ایک روایت میں یہ آتا ہے کہ آپ علیہ السلام شروع رات میں آرام فرماتے اور آخر رات میں اُٹھ جاتے تھے۔ اور مسند احمد کی روایت میں ہے حضرت عبداللہ بنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عشاء کے بعد آپﷺ گفتگو اور بات چیت کو ناپسند فرماتے تھے۔