گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
ہوگئی اور چھوٹے بچے کی بھی برآمد ہوگئی۔ برصیصا نے اپنے تمام گناہوں کا اعتراف کرلیا۔ اقرارِ جرم کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ پھانسی کا انتظام کیا گیا اور برصیصا کو تختہ دار پر لایا گیا۔ جب رسا گردن پر آگیا تو عین اس موقع پر جب جلّاد نے رسے کو کھینچنا تھا اور پھانسی دینی تھی۔ عین اس موقع پر شیطان اسی عبادت گزار کی شکل میں آیا، جس میں اس نے برصیصا کے ساتھ ایک سال عبادت کی تھی۔ اُسی شکل میں آکر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ مجھے پہچانتے ہو؟ اِس نے کہا کہ ہاں! تم وہی ہو جس نے میرے ساتھ ایک سال عبادت کی تھی۔ شیطان نے کہا کہ ٹھیک پہچانا، میں وہی ہوں جس نے عبادت کی تھی۔ وہ دَم میں نے تمہیں سکھایا تھا، شہزادی کی طبیعت کی ناسازی میں میرا کردار تھا، زنا میں نے تم سے کروایا، پہلا قتل میں نے ہی تم سے کروایا، دوسرا بھی تم سے کروایا، پھر تمہاری ساری حرکتوں کی رپورٹ شہزادوں کو میں نے ہی دی۔ اور اگر میں چاہوں تو تمہیں پھانسی کے پھندے سے بچا بھی سکتا ہوں، میرے علاوہ اور کوئی بچا نہیں سکتا۔ جو لوگ گناہ کرتے رہتے ہیں، موبائل فون کا غلط استعمال کرتے رہتے ہیں، ان کی عقل ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ عقل کی رَتی نہیں رہتی، خالی شہوت باقی رہتی ہے۔ برصیصا پریشان تو تھا ہی، شیطان سے پوچھا کہ ہاں! بتاؤ کہ میں کون سا عمل کروں کہ تم مجھے بچا لو گے؟ شیطان نے کہا کہ تم اتنا اِقرار کرلو کہ خدا نہیں ہے۔ نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ ذٰلِكَ! میں تمہیں بچالوں گا اور تم بچ جاؤ گے۔ اب عقل تو ختم ہوچکی تھی، چناںچہ اس نے دل میں سوچا کہ میں ابھی کہہ دیتا ہوں کہ خدا نہیں ہے، بعد میں جاکر توبہ کرلوں گا اور اللہ کو منالوں گا۔ آج ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ابھی تو موقع ہے، زندگی پڑی توبہ کرنے کو، ابھی