گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
میں کیسے رکھوں گا؟ دوبارہ پوچھا کہ تم تیار ہو؟ کہا کہ ہاں! اگر کوئی بیٹی دینے کے لیے تیار ہے تو میں سنت ضرور پوری کروں گا، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ میرے سسر نے کہا کہ کل عصر کے بعد پھر آپ کا نکاح میری بیٹی کے ساتھ طے ہوگیا ہے۔ وہ لوگ پیشانی کا نور دیکھا کرتے تھے۔ آج ہم بہت کچھ دیکھتے ہیں، بہت کچھ کرلیتے ہیں، اور پھر بھی سکون نہیں ملتا۔ جو دین دیکھنا ہوتا ہے اس کی طرف تو نظر ہی نہیں ہوتی۔ اسے بالکل گیا گزرا سمجھتے ہیں۔ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں طلباء میں گیا تو انہیں پتا لگ گیا کہ کل میرا نکاح ہے۔ احمد علی کا نکاح ہے۔ اب سب نے اپنے اپنے مشورے دینے شروع کر دیے۔ بہر حال دوستوں کا آپس میں مذاق تو ہوتا ہی ہے۔ کسی نے کہا: دیکھو بھئی! کل آپ کا نکاح ہے اور آپ کے پاس کوئی صاف جوڑا، نیا جوڑا نہیں ہے۔ اب آپ ایسا کریں کہ ایک دن کے لیے، نکاح کے لیے کسی سے جوڑا قرض لے لیں بعد میں اس کو واپس کر دیجیے گا۔ کہنے لگے: نہیں بھئی! میری عزّتِ نفس یہ گوارا نہیں کرتی کہ میں قرض لے کر نکاح کروں۔ میں جیسا ہوں بس ویسا ہی ہوں، مجھے قرض نہیں لینا۔ کسی طالب علم نے کہہ دیا کہ بھئی دیکھو! نیا جوڑا نہیں لیتے، چلو کوئی بات نہیں، لیکن اس کو تو دھو لینا تاکہ ذرا صاف ستھرے جوڑے کے ساتھ بیٹھو۔ فرماتے ہیں کہ میری تو بدبختی آگئی کہ میں نے اس بات کو قبول کرلیا۔ اگلے دن میں نے دھوتی باندھی، کپڑے اُتارے اور کپڑوں کو دھونا شروع کر دیا۔ اُدھر سے موسم بھی ٹھنڈا تھا اور بادل بھی آگئے۔ اِدھر ظہر کاوقت ہوگیا اور عصر کے بعد نکاح ہونا تھا۔ وقت قریب تھا اور میں کپڑے سکھا رہا تھا، لیکن وہ نہ سوکھے۔ میں بڑا پریشان ہوا کہ یہ میں نے کیا کرلیا۔ الغرض وہی گیلے کپڑے پہن کر مسجد گیا اور نکاح کی مجلس میں بیٹھ گیا۔