گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
اسلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے وہ درجات عطا فرمائے کہ جب اُن کی تدفین ہوئی تو قبر سے خوشبو بھی آئی۔ لوگ مٹی تک اُٹھاکے لے گئے۔ ایک صاحب میرے پاس کچھ دن پہلے آئے تھے، انہوں نے بتایا کہ وہ مٹی آج تک میں نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ بہرحال اتنی برکت والے بزرگ تھے۔ ابتدائی جوانی میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے کے لیے آگئے حتّٰی کہ پڑھتے پڑھتے دورہ حدیث میں پہنچ گئے۔ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ خودفرماتے تھے کہ جب میرے سسر کو معلوم ہوا کہ گھر میں بیٹی جوان ہوچکی ہے، تو وہ پنجاب کے مدارس میں نکلے کہ بھئی! کوئی نوجوان طالب علم نورِ نسبت والا مل جائے تو اپنی بیٹی اُس سے بیاہ دیں۔ فرماتے ہیں کہ وہ دارالعلوم دیوبند پہنچ گئے۔ دارالعلوم کے مہتمم اُن کے دوست تھے۔ چناں چہ انہوں نے مہتمم صاحب سے کہا کہ حضرت! میری بیٹی جوان ہوچکی ہے، کوئی اچھا بچہ ہو، نیک شریف ہو تو میں اُسے دینا چاہتا ہوں۔ مہتمم صاحب نے کہا کہ سامنےحدیث کے طلبہ کی کلاس ہے، اس میں وہ طلباء ہیں جو فارغ ہونے والے ہیں۔ اُن میں جا کے دیکھ لیں۔ سُسر صاحب جب آئے تو انہوں نے مجھے دیکھا اور پھر واپس جا کر شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ یہ نوجوان مجھے پسند ہے۔ کیا یہ نکاح کرے گا؟ حضرت شیخ نے کہا: دیکھو! یہ ایک سکھ گھرانے کا نوجوان ہے، اور اپنے گھر سے الگ ہو کر ادھر آیا ہے۔ اب اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے، نہ مال، نہ خاندان، نہ گھر، کچھ نہیں ہے۔ یہ تو یہیں پڑا رہتا ہے۔ جیسے اصحابِ صفہ کے صحابہ رضی اللہ عنہ تھے اور ان کے پاس بھی بالکل کچھ نہیں تھا۔ پھر کہا کہ اچھا! اسی سے پوچھ لیتے ہیں کہ شادی کے لیے تیار ہو؟ چناں چہ ان کو بلا کر پوچھا: ہاں بھئی! آپ شادی کے لیے تیار ہیں؟ کہنے لگے: میں بالکل اکیلا ہوں، آگے پیچھے کوئی بھی نہیں۔ نہ مال ہے، نہ کمائی ہے تو