حاصل تھے، شریعت اور اس کے احکام کا علم اس کے علاوہ تھا، ان کا مقصد یہ تھا کہ فقہ کے ائمہ، فقہ اور تصوف دونوںکے ساتھ متصف تھے اور دونوں کے جامع تھے اور انصاف یہ ہے کہ ائمہ تصوف بھی دونوں کے جامع تھے، فرق غالب اور مغلوب کا تھا(یعنی ائمہ فقہ پر فقہ کا اور ائمہ تصوف پر تصوف کا غلبہ تھا۔(۱)
شریک نخعی کا بیان ہے:
ابو حنیفہ کی طویل خاموشی، دائمی فکر، اور لوگوں سے کم کلام کرنا یہ سب واضح علامت ہے، علم باطن اور دین کے اہم امور میں مشغولی کی اور پھر یہ کہ جس کو خاموشی اور زہد دیا گیا اس کو کل کا کل علم دے دیا گیا۔(۲)
شیخ علی ہجویری اپنی کتاب کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:
اور انہی بزرگوں میں امامِ جہاں،مقتدائے خلق، زینت وشرف فقہاء، باعث شان علماء حضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخزاز بھی شامل تھے، عبادت ومجاہدہ میں انتہائی ثابت قدم تھے اور طریقت کے اصولوں میں شان عظیم کے مالک تھے، ابتدائے حال میں گوشہ نشینی کا ارادہ رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ تمام مخلوق سے کنارہ کش رہیں، یوں کہ گویا ان کی درمیان میں ہیں ہی نہیں کیوں کہ ان کا دل امارت وجاہ وحشم سے پاک ہوچکا تھا اور وہ اپنے آپ کو شائستہ درگاہ الہٰی بنا چکے تھے۔(۳)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) سیدنا امام اعظم،مصنفہ شاہ تراب الحق قادری ص ۱۲۵، زاویہ پبلشرز لاہور ۲۰۰۹ء
(۲) امام اعظم ابو حنیفہ حالات ، کمالات ملفوظات ص:۹۴
(۳) شیخ علی ہجویری ، کشف المحجوب عربی ص: ۳۰۲، دراسۃ وترجمہ دکتورۃ اسعاد عبد الہادی قندیل، مکتبۃ الاسکندریہ ۱۹۷۴ء