شاگرد دکان میں تھا، اس خریدار نے اسی شاگرد کو امام ابو حنیفہ سمجھ لیا اور اس شاگرد نے اتفاقا یا غلطی سے اس کی پسند کے کپڑے کی قیمت ایک ہزار درہم بتائی جب کہ اصلی قیمت چار سودرہم تھی، اس مدنی خریدار نے تو کپڑے کو ایک ہزار میں ہی خرید لیا؛لیکن جب امام صاحب تشریف لائے ، چند دنوں کے بعد اس کپڑے کے بارے میں معلوم کیا تو شاگرد نے کہا میں نے اسے مکمل ایک ہزار میں فروخت کردیا، اس پر امام صاحب نے بہت ناگواری کا اظہار فرمایا اور غصہ بھرے لہجے میں فرمایا تغر الناس وأنت معي في دکاني تم لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو حالاں کہ تم دکان میں میرے ساتھ کام کرتے ہو معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا ؛بلکہ وہ خریدار مال خرید کر مدینہ واپس جاچکا تھا، حضرت امام کو یہ محسوس ہوا کہ اس خریدار کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اگر اس کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ یہ ایک ریٹ کی دکان ہے تو و ہ ضرور قیمت کم کرانے کی کوشش کرتا اس لئے امام صاحب نے اس خریدار کی تلاش میں مدینہ کا سفر کیا اوراس آدمی کو مسجد میں نماز کی حالت میں پایا اور وہ کپڑا اس کے جسم پر تھا، امام صاحب نے نماز کے بعد اس شخص سے کہا یہ کپڑا میرا ہے، اس آدمی نے کہا آپ کا کپڑا کیسے ہوسکتا ہے میں نے تو اسے کوفہ میں امام ابو حنیفہ کی دکان سے خریدا ہے، امام صاحب نے فرمایا کیا تو ابو حنیفہ کو پہچانتا ہے، اس نے کہا ہاں،امام صاحب نے فرمایا میں ہی ابو حنیفہ ہوں،اس کے بعد امام صاحب نے پورا واقعہ بیان کیا، اب وہ شخص کہنے لگا میں اس کپڑے کو کئی بار پہن چکا ہوں اس کوو اپس کرنا مناسب نہیں، لیکن امام صاحب کا اصرار تھا کہ چار سو کا کپڑا دھوکے میں ایک ہزار میں فروخت ہوا ہے، اس لئے یا تو یہ پہنا ہوا کپڑا واپس کردو یا کم از کم چھ سو درہم واپس لے لو، بالآخر اس خریدار نے چھ سو درہم واپس لیا اور معاملہ ختم ہوا۔(۱)
آج کی ترقی پسند دنیا اسے احمقانہ فعل کہہ سکتی ہے،بلکہ بیچنے والے ملازم کو انعام دیا جاسکتا ہے کہ اس نے کمپنی کو اس قدر نفع پہونچایا،لیکن امام صاحب کا مقصد تجارتکرکے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ ۱؍۴۷۴ دارالکتب العربی بیروت ۱۹۸۱ء