میں یہ کوئی حدیث روایت کریں گے تو غلط روایت کریں گے اور اگر اپنی رائے سے فتویٰ دیں گے تو وہ بھی غلط ہوگا، قتادہ بولے کیا خوب! کیا یہ واقعہ پیش آچکا ہے، امام صاحب نے فرمایا نہیں، انہوں نے کہا پھر جو مسئلہ ابھی تک پیش نہیں آیا اس کا جواب مجھ سے کیوں دریافت کرتے ہو، امام صاحب نے فرمایا کہ ہم حادثہ پیش آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرلیتے ہیں تاکہ جب پیش آجائے تو اس سے نجات کی راہ معلوم رہے، قتادہ ناراض ہوکر بولے خدا کی قسم میں حلال وحرام کا مسئلہ تم سے بیان نہیں کروں گا، ہاں کچھ تفسیر کے متعلق پوچھنا ہو تو پوچھو! اس پر امام صاحب نے ایک تفسیری سوال کیا قتادہ اس پر بھی لا جواب ہوگئے اور ناراض ہوکر اندر تشریف لے گئے۔(۱)
اس واقعہ سے امام صاحب کی ذکاوت وذہانت اور فقہ سے گہری وابستگی کے ساتھ فرضی اور بعد میں پیش آنے والے مسائل کی طرف ان کی غایت انہماک واہتمام کا پتہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، موفق احمد مکی نے امام صاحب کے حوالے سے لکھا ہے: اہل علم کو چاہئے کہ جن باتوں میں لوگوں کے مبتلا ہونے کا امکان ہے، ان کو بھی سوچ لیں تاکہ اگر واقعہ ہی ہوجائے تو انہیں انوکھی بات نظر نہ آئے، بلکہ معلوم رہنا چاہئے کہ ان امور میں اگر کسی کو مبتلا ہی ہونا پڑے تو شرعا ابتلا کے وقت کیا کرنا چاہئے اور مبتلا ہونے کے وقت شریعت نے کیا صورت بتائی ہے، قیس بن الربیع کہتے ہیں امام صاحب ان مسائل کو سب سے ز یادہ جانتے تھے جن کا وجود نہیں ہوا تھا۔(۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) خطیب بغدادی ،ابو بکر احمد بن علی ،تاریخ بغداد۱۳؍۳۴۸، دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۷ء
(۲) مناقب موفق بحوالہ امام اعظم ابو حنیفہ مصنفہ مفتی عزیز الرحمن ص:۱۷۹