مقابلے میں استحسان کو اختیار کرتے تھے، استحسان یہ بھی قیاس کی طرح دلیل شرع ہے، بعض حضرات نے امام صاحب پر یہ الزام عائد کیا کہ آپ استحسان پر عمل کرتے ہیں جب کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو امام صاحب نے فرمایا کہ استحسان قرآن وسنت دونوں سے ثابت ہے، قرآن کریم کی آیت الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَہُ(۱) اور
حدیث ما رآہ المسلمون حسنا فہو عند ا للہ حسن۔(۲) سے استحسان کا جواز ثابت ہوتا ہے اور یہ استحسان نہ صرف یہ کہ امام صاحب کے یہاں ہے بلکہ دیگر ائمہ مجتہدین کے یہاں بھی استحسان پر عمل موجود ہے، موفق احمد کا بیان ہے:
ومع ذلک فإن سائر الفقہاء کما لک والشافعي شحنوا کتبہم بالاستحسان قال الشافعي استحسن أن یکون المتعۃ ثلاثین درہما۔
اس کے باوجود تمام فقہاء جسے امام مالک او رامام شافعی نے اپنی کتابوں کو استحسان سے مزین کیا ہے، امام شافعی فرماتے ہیں میں اس بات کو مستحسن سمجھتا ہوں کہ متعہ تیس درہم ہونا چاہئے۔(۳)
امام صاحب کے نزدیک استحسان کا عمل شاگردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا، امام محمد فرماتے ہیں امام صاحب کے تلامذہ دلائل اور استنباط کے معاملے میں ان سے بحث ومباحثہ کرتے تھے، لیکن جب آپ کہتے میں اس مسئلے میں استحسان پر عمل کررہا ہوں تو پھر کوئی اس مسئلے میں آپ سے بحث نہیں کرتا إذا قال استحسن لم یلحقہ أحد منہم لکثرۃ ما یورد في الاستحسان۔(۴)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الزمر:۱۸
(۲)عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، باب ما جاء فی ضرب شارب الخمر، حدیث نمبر: ۳۷۷۶-۲۳؍۲۶۶ ڈیجیٹل لائبری
(۳) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ ۱؍۵۸۵، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۸۱ء (۴) مناقب ابی حنیفہ للموفق ۱؍۸۱