زمانہ اس قدر ترقی کر گیا ہے، باریک بینی اور دقت آفرینی کی کوئی حد نہیں، تجربہ اور دقت نظر نے سینکڑوں نئے نکتے ایجاد کئے؛ لیکن تنقید احادیث، اصولِ درایت، امتیاز مراتب میں امام ابو حنیفہ کی جو حد ہے آج بھی ترقی کا قدم اس سے آگے نہیں بڑھتا۔(۱)
علامہ شبلی کے بیان سے امام صاحب کے دقت نظر، اور فن حدیث میں خصوصی مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ امام صاحب کے نزدیک روایت حدیث کے جو شرائط ہیں وہ سب سے سخت ہیں، یوسف بن صالح دمشقی اور ابن خلدون نے ا مام صاحب کی قلت روایت کی وجہ ان کی سخت شرائط کو قرار دیا ہے والامام أبو حنیفۃ إنما قلت روایتہ لما شدد في شروط الروایۃ والتحمل۔(۲) ذیل میں چند شرائط کو مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔
(۱) امام صاحب کے نزدیک روایت حدیث کے لئے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ سماع کے وقت سے بیان کے وقت تک وہ حدیث بعینہ یاد ہو، اگر اس حدیث کو سننے کے دن سے بیان کرنے کے دن تک صحیح یاد نہ رکھتا ہو تووہ روایت بیان کرنا جائز نہیں ہے۔(۳)
(۲) جمہور محدثین کے یہاں روایت بالمعنی جائز ہے، لیکن ا مام صاحب کے نزدیک روایت بالمعنی جائز نہیں ہے، ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ امام صاحب روایت بالمعنی کو جائز نہیں کہتے تھے، چاہے وہ مترادف الفاظ ہی کیوں نہ ہو۔
(۳) امام عبد الوہاب شعرانی نے آپ کی ایک شرط یہ تحریر کی ہے کہ جو حدیث سرکار دو عالم سے منقول ہو اگر اس کا تعلق اسلام کی عام عملی زندگی سے ہو تو اس میں امام ابو حنیفہ یہ شرط لگاتے ہیں کہ اس پر عمل سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ راویِ حدیث سے صحابی تک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) شبلی نعمانی، سیرۃ النعمان ص: ۱۱۲، دارالکتاب دیوبند
(۲) مقدمہ ابن خلدون ۱؍۵۶۲، الفصل السادس فی علوم الحدیث (۳) الخیرات الحسان ص: ۲۲۰