استنباط تھا نہ کہ نقلِ روایت جس طرح سے جلیل القدر کبار صحابہ احادیث پر عمل اور ان سے احکام کے استنباط سے دلچسپی رکھتے تھے اور انتہائی احتیاط کے باعث حدیثوں کی روایت سے گریز کرتے تھے، چنانچہ ان کی مرویات بہ نسبت دوسرے صحابہ کے کم ہیں، حالانکہ انہیں حدیثوں کا علم کم نہیں ہوتا تھا، دوم یہ کہ خود حضرت امام کے یہاں حدیث بیان کرنے کے لئے شرائط سخت تھے منجملہ شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ کسی شخص کو حدیث بیان کرنے کی اجازت اسی وقت ہوگی جب کہ اس نے سننے کے وقت سے لے کر بیان کرنے کے وقت جوں کا توں محفوظ رکھا ہو۔(۱)
شیخ صالحی کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو اسباب ہیں جن کی بنیاد پر امام صاحب کی روایتیں کم ہیں، لیکن اگر امام صاحب کی تصنیفات ومرویات کا جائزہ لیا جائے تو قطعا اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ امام صاحب کی روایتیں کم ہیں اس لئے کہ صرف خوارزمی کی ’’جامع المسانید‘‘ میں آپ کی سند سے مرفوع احادیث کی تعداد نوسو سولہ (۹۱۶) ہے اور اگر آثار صحابہ کو ملا لیا جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہوجاتی ہے، جب کہ امام مالک کے متعلق علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں:
امام مالک کے پاس صحیح احادیث کا جو کچھ سرمایہ ہے وہ سب موطا میں موجود ہے اور موطا مالک کی کل حدیثیں تین سو(یا کچھ کم وبیش) ہیں۔(۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) یوسف صالحی دمشقی،عقود الجمان ص:۲۹۴ تحقیق ودراسہ عبد القادر افغانی، رسالۃ ماجستر، جامعہ ام ا لقری، ۱۳۹۹ھ
(۲) مقدمہ ابن خلدون ۱؍۵۵۶ الفصل السادس فی علوم الحدیث