انوار رمضان |
ضائل ، ا |
|
گئے اور آپﷺ نے بھی اعتکاف نہیں فرمایا ،یہاں تک کہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔(بخاری:2041)(فتح القدیر:2/389)(مرقاۃ المفاتیح : 4/1446) اِس سے معلوم ہوا کہ آپﷺسے ایک مرتبہ اعتکاف کا چھوڑنا بھی ثابت ہے ، لیکن چونکہ آپﷺنے اُس کے تدارک اور تلافی کیلئے شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمالیا تھا اِس لئے یہ کہنا بھی درست ہے کہ آپﷺ نے ہمیشہ اعتکاف فرمایا ہے ۔ (2)مُعتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے: حضرت عبد اللہ بن عباسنبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں :”هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ وَيَجْرِىْ لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا“ اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے، اور اُس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے بندے کی طرح جاری رہتا ہے۔(ابن ماجہ :1747) فائدہ : اِس حدیث سے اعتکاف کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ معتکف مسجد کی حدود میں رہنے کی وجہ سے گناہوں سے بچا رہتا ہے ، البتہ اِس بات کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے کہ باہر کے گناہوں سے تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی حفاظت کا بندو بست فرمادیا اور اُسے معاصی سے محفوظ رہنے کی توفیق عطاء فرمائی ، اب مسجد کی حدود میں رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ مسجد میں رہتے ہوئے کھیل کود،دنیا کی باتیں اور فضولیات و لغویات میں پڑکر ”نیکی برباد اور گناہ لازم “کا مصداق بن جائے ۔ایک احتمال اِس حدیث میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ