انوار رمضان |
ضائل ، ا |
|
اللیل جیسی عظیم عبادت متاثر ہوکر رہ جاتی ہے ، اِس لئے کھانے پینے میں اعتدال کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریااَکابر و مَشائخ کے حوالے سے روزےکے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اِفطار کے وقت حلال مال سے بھی اتنا زیادہ نہ کھاناچاہیئےکہ شکم سیر ہوجائے، اِس لئے کہ روزہ کی غرض اس سے فوت ہوجاتی ہے۔(فضائلِ رمضان:29) شکم پُری کی مذمّت پر چند احادیث: حضرت مِقدام بن معدیکربنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں :”مَا مَلَأ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنِهِ حَسْبُ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ،فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ، فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ، وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ، وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ“ کسی شخص نےپیٹ سے زیادہ بُرا برتن نہیں بھرا ، اِبنِ آدم کیلئے تو چند لقمے ہی کافی ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنی پیٹھ کو سیدھا رکھ سکے، اور اگر لامحالہ کھانا ہی ہے تو (اِس طرح کھاؤ کہ پیٹ کا ) ایک تہائی کھانے کیلئے،ایک تہائی پینے کیلئے اور ایک تہائی سانس لینے کیلئے چھوڑنا چاہیئے۔(شعب الایمان:5263) حضرت عبد اللہ بن عمرنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”الكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ،وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ“ کافرسات آنتیں بھر کر اور مؤمن ایک آنت بھر کر کھانا کھاتا ہے۔(ترمذی:1818)